چہرے سے انسان کی پہچان اور شناخت ہے اور کسی کا چہرہ بگاڑنا یا اسے مسخ کرنا انتہائی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس جدید دور میں انسان آج بھی جاہلانہ رسم و رواج اور طور طریقوں میں جکڑا نظر آتا ہے جس کی واضح مثال تیزاب گردی کے ذریعے معصوم، خوبصورت اور جاذب نظر چہروں کو نشانہ بناکر ان لڑکیوں کو زندہ درگورکردینا ہے۔ جنوبی پنجاب میں تیزاب گردی کےواقعات پر نظر ڈالی جائے تو تیزاب گردی آج بھی سب سے بڑا مسئلہ اور ایسا قبیح فعل ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے جنوبی پنجاب میں رواں سالکے دوران اب تک خواتین پر تیزاب پھینکنے کے کئ واقعات رونما ہو چکے ہیں چند واقعات میں مرد بھی تیزاب گردی کا شکار ہوئے ہیں لیکن حکومتی قوانین پرعملدرۤآمد نہ ہونے اور تعلیم کی کمی کے باعث ایسے واقعات کی بیخ کنی نہ ہونا حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔ انسانی چہروں کو بگاڑنے والے ملزم آج بھی آز اد پھر رہے ہیں۔ 2010 میں ایسڈ کنٹرول اور ایسڈ کرائم پری وینشن بل 2010 کو کرمنل لاءامینڈمنٹ ایکٹ 2011 کے طور پراسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جسے سابق پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور تو کر لیا تھا مگر نجانے اس قانون پر عمل کب ہو گا ۔ کرمنل لاءامینڈمنٹ ایکٹ 2011 نے تیزاب گردی اور جلائے جانے کے تشدد کو ریاست کے خلاف جرم تصور کیا اور پہلی مرتبہ اسے ناقابل مصالحت اور ناقابل ضمانت جرم قراد دیا۔اس بل کے تحت مجرم کو دس لاکھ روپے جرمانہ اور کم از کم 14سال قید کی سزا ہے۔ تیزاب گردی کے جرائم پر 2011 کی قانون سازی کے بعد، 2012 میں سزا کی شرح تین گنا اضافے کے ساتھ 18 فیصد ہوگئی مگر متاثرہ افرادکو اب بھی شکایات درج کروانے اور ملزمان کو سزا دلوانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ 2012 کے بعد ایک بار پھر عوام کو سہانے خواب دکھانے کے لئے ایسڈ اینڈ برن کرائم بل 2014 میں تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کے قانون میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور توکر لیا گیا۔ مگرقانون بنانے والے ان پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہی رہے ۔ بل کے تحت تیزاب اور آگ سے جلانے کے واقعہ میں متاثرہ شخص کی موت پر مجرم کو کم از کم عمر قید کی سزا دی جائیگی،دانستہ تیزاب یا آگ سے جلانے کے عمل سے زخم پہنچانے والے کوکم ازکم 7 سال سزا ہوگی ،تیزاب یا آگ سے جلانے کے ارتکاب کی کوشش کرنے والے کو 3 سے 7 سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ تیزاب اور آگ سے جلنے والے افراد کی مفت طبی امداد اور بحالی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ ان قوانین کے باوجود اب بھی جنوبی پنجاب میں گھریلو جھگڑے، شک اور رشتہ سے انکار پر خواتین کو تیزاب گردی کا سامنا ہے ملزمان کو سزا دلوانا تو دور کی بات تیزاب سے متاثرہ خواتین کی بحالی کے حوالے سے بھی حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے ۔ پاکستان میں پلاسٹک سرجری انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے غربت اور چھوٹے شہروں میں یہ سہولت نہ ہونے کے باعث خواتین کے لئے سرجری کروانا نا مکمن ہے۔ اگر جنوبی پنجاب میں کسی خاتون کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آئے تو وہ تمام عمر کے لیے مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتی ہے۔ تیزاب گردی کا شکار ہونے والی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی نصرت بی بی کی بھی ایسی ہی مثال ہے جو کہ غربت کی وجہ سے سرجری نہ کروا سکی جسے 7 سال قبل شوہر نے شک کی بنا پر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے جھلسا دیا تھا مگر اس کے باوجود نصرت بی بی نے ہمت نہ ہاری اور معجزاتی طور پر ایک این جی او نے اس کی پلاسٹک سرجری کروا کر اس کو ہنر کی تربیت بھی دی جس سے نصرت بی بی کوزندگی کی نئی جہت ملی ہے۔سات سال قبل تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کی رہائشی نصرت بی بی نارمل زندگی کے سہانےاور خوبصورت شب و روز یاد کرکے آج بھی اپنی کم بختی پر نوحہ کناں نظر آتی ہے، نصرت بی بی کا کہناہے کہ تیزاب کی جلن کا احساس آج بھی بر سوں پہلے کی طرح ہوتا ہے مگر کو ئی بھی اس تکلیف کو نہیں سمجھ سکتا ہے ۔بچے جیسے جیسے بڑے ہو رہے ہیں میرے چہرے کی بارے میں سوال پوچھتے ہیں ۔تیزاب گردی کے وقت سے لے کر آج تک لوگوں کی سوالیہ نظروں اور تحقیر کا نشانہ بننے کے باوجود ہر بار خود کو یقین دلا تی ہوں کہ مجرم میں نہیں کو ئی اور ہے مجھے بس جینے کا حق لینا ہے۔ نصر ت بی بی نے بتا یا کہ تیزاب سے جھلسنے کے بعد ابتدائی علا ج ومعالجہ اور تھانے کچہری کے چکر کا ٹنے کا اذیت ناک سفر طے کر نے کے ساتھ محتاج بننے کی بجا ئے اپنا سہارا خود بنی راستے میں بے شمار مسائل اور مشکلا ت سر اٹھائے روکنے کی کو شش کر تے رہے مگر اللہ کے شکر سے آج بھی زندہ ہوں اور با اختیار ہوں کیو نکہ مایو سی اور خودکشی کی بجائے امید تھامے رکھی اپنے جلے چہرے کے ساتھ ہنر کو اپنی طا قت بنا یا۔عام تصور یہ ہے کہ تشدد اور تیزاب سے جھلسنے سے عورت جیتے جی مار دی جا تی ہے ۔زندگی کی رمق تک نہیں رہتی ہے۔تا ہم میرے جیسی عورت معاشر ے کو پیغام دیتی ہے کہ مجھے جتنا مارو گے میں پھر بھی زندہ رہوں گی جینے کا حق لے کر رہوں گی۔ ہم عورتیں جانور نہیں ہیں کہ کاٹ دو اور آواز تک نہ نکلے ۔ ہم بار بار اپنے انسان ہو نے کا احساس دلا تی رہیں گی۔ برسوں قبل شو ہر صرف شک کی بنیاد پر اس کے چہرے اور جسم کو گرم سیال مادے سے نہلا دیا جس کی جلن نے آگ کی تپش کے علاوہ سب احساس مٹا دیئےاور ہوش وحواس سے بیگانہ کر دیا۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتا یا کہ وہ زندہ درگور کر دی گئی ہے۔ابتدائی علا ج کے بعد ایک این جی او نے اس کی سرجری کرائی اور ٹیلرنگ اور بیوٹیشن کا کور س کرایا۔جس سے اسے حوصلہ ملا اور بچوں کے حصول کیلئے اس نے عدالت سے رجوع کیا ساتھ ہی گھر میں خواتین کے کپٹرے سلائی کر نے لگی۔ والدین خود غریب تھے ان پر بوجھ بننا گورا نہیں تھا۔ مشکل سے ہی سہی گزر بسر ہو تی رہی آج پورے علا قے میں اس سے اچھی سلا ئی کو ئی نہیں کر تا ہے اسی لیئے اسے زیادہ آرڈر ملتے ہیں۔ جھلسنے کے تین سال بعد ماں نے ایک مر تبہ پھر شادی کیلئے دباؤ ڈالا تو کر لی موجودہ شوہر اس کا اور اس کے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔مگر اب بچے بڑے ہو رہے ہیں تو اسے ایک اور امتحان کا سامنا ہے ۔اس کے چہرے کی سرجری کے باوجود نشانات ختم نہیں ہو سکے ۔جس پر وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہوا کیوں ہوا۔ کبھی تو لگتا ہے 7سال پیچھے جا کھڑی ہو ئی ہوں پھر ہمت کر کے آگے قدم بڑھا دیتی ہے۔ بچوں کو حقیقت بتاتے ہو ئے موت سے گزرنا پڑا ۔ مگر تیزاب کی جلن قبرتک ساتھ جا ئے گی۔ شوہر اب کام کر نے سے روکتا ہے مگر وہ اس کا مالی بوجھ بانٹنا چا ہتی ہے اور اپنے ہنر سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا چا ہتی ہے۔ نصرت بی بی کے سابق شوہر کے چند منٹوں کے غصے نے اس کی زندگی تادم مرگ برباد کر کے رکھ دی نصرت بی بی تیزاب گردی کے واقعات پر قابو پانے اور ملتجی نظروں سےانسانی چہروں کو مسخ کرنے والوں کو سخت انجام تک پہنچانےکی خواہاں ہے تاکہ اس کی طرح کوئی اور اپنے خوبصورت چہرے اور ہنستی بستی زندگی سے محروم نہ ہو ۔
فیس بک کمینٹ