اس وقت سیاسی حلقوں اور عوام میں موضوع بحث 2018 کے عام انتخابات اور اس کے بعد بننے والی حکومت ہے ، کوئی کسی جماعت کو مضبوط سمجھ رہا ہے تو کوئی کسی اور کو ، موجودہ صورتحال دیکھی جائے تو مستبقل کا سیاسی منظرنامہ دھندلا دکھائی دیتا ہے لیکن نتیجہ پھر بھی صاف نظراآ رہا ہے۔ مستقبل میں کیا ہوگا فیصلہ سازوں نے اس کا ” ٹریلر ” بلوچستان میں دکھادیا ہے ۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں کل 65 نشستیں ہیں 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن 21 ، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی 14 ، نیشنل پارٹی 11، جے یو آئی ایف 8 ، مسلم لیگ ق 5 ، بلوچستان نیشنل پارٹی 2 ، مجلس وحدت المسلمین ، بی این پی عوامی ، عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدواروں نے ایک ایک نشست حاصل کی ۔ مسلم لیگ ن نے نیشنل پارٹی کیساتھ اتحاد کرکے مشترکہ حکومت بنائی جس میں طے پایا کہ آدھی مدت نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بلوچ جبکہ باقی مدت مسلم لیگ ن کا وزیراعلیٰ ہوگا عبدالمالک 23 دسمبر 2015 کو وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہوئے ان کے بعد ثناءاللہ زہری نے وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال لیا لیکن 2017 ءمیں نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو سیاسی ہل چل مچ گئی بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ کی کرسی خطر ےمیں پڑ گئی تحریک عدم اعتماد کے خوف سے ثناء االلہ زہری نےاستعفی دے دیا اور پھر بلوچستان میں 2013 کے عام انتخابات میں "پانچویں پوزیشن ” حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ق کا وزیراعلیٰ منتخب کروادیاگیا.
مسلم لیگ ق کے میر عبدالقدوس بزنجو نے 65 کے ایوان میں 41 ووٹ جبکہ ان کے مد مقابل پشتون خوا میپ کے سید لیاقت آغا نے 13 ووٹ حاصل کیے مجموعی طور پر 54 ووٹ ڈالے گئے وزیراعلیٰ اور 14 رکنی صوبائی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے ، کابینہ میں مسلم لیگ ن کے سرفراز بگٹی ، پرنس احمد علی ، نواب چنگیز مری ، سرفراز چاکر ڈومکی ، بی بی راحت جمالی ، عاصم کدگیلو ، عبدالماجد ابڑو ، حاجی غلام دستگیر بادینی ، میر عامر رند ، طاہر محمود خان ، حاجی اکبر آسکانی ، مسلم لیگ ق کے شیخ جعفر مندوخیل ، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ اور ایم ڈبلیو ایم کے سید آغا رضا شامل ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اواران کے حلقہ سے منتخب ہوئے وہاں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 57 ہزار 666 ہے جبکہ پولنگ میں ایک اعشاریہ ایک آٹھ فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے اور عبدالقدوس بزنجو 544 ووٹ لیکر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔
ثابت یہ ہوا کہ آپ ” فیصلہ سازوں ” سےرابطے اور تابعداری میں رہیں تو آ پ کو اس کا صلہ ضرور ملے گا۔ بلوچستان کی صورتحال نے یہ عملی طور پر ثابت کردیا ہے ۔ بلوچستان میں کل 65 میں سے 5 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا وزیراعلیٰ منتخب ہو گیا جبکہ ایک ایک نشست والے رکن کو وزارت بھی مل گئی ہے اور رابطے میں رہنے کا پھل بھی ۔
بلوچستان میں جمہوریت اور عوامی حق رائے دہی کا حال آپ نے دیکھ لیا یہ فیصلہ سازوں کی جانب سے 2018 کے عام انتخابات کا ٹریلر دکھایا گیا اور سمجھادیا گیا ہے ساڈے نال رہوو گے تے عیش کروگے ۔
2018 میں جو بھی جماعت اکثریت حاصل کرےیہ بات اب بے معنی ہو گئی ہے۔ لازمی نہیں کہ پہلی پوزیشن والی جماعت کا رکن ہی وزارت عظمی کے منصب پر براجمان ہو۔ دوسری ، تیسری ، چوتھی پانچویں ، چھٹی ، ساتویں یا ایک نشست بھی ہو تو پارٹی پرامید رہے ۔ حکومت اسی کی بنے گی جو مقتدر حلقوں کی تابعداری میں کوئی کمی نہ لائے اور تمام اختیارات ان کے حوالے کرنے کی یقین دہانی میں کامیاب ہوجائے ۔ مستبقل کا فیصلہ عوام نہیں "فیصلہ ساز ” ہی کریں گے ۔