چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا اور ان تمام اراکین پارلیمان کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں جو کالعدم تنظیموں کی کھل کر حمایت کرتے ہیں ۔۔ اس موقع پر چیرمین بلاول بھٹو نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بھی کئی سوال اٹھائے ۔ ملک میں موجود انتہا پسندی اور شدت پسندی کی ایک اور وجہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونا ہے حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف ٹھوس کار روائی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جب کبھی بین الاقوامی برادری کی جانب سے کوئی دباؤ آتا ہے تو ہم کالعدم تنظیموں کی فہرست جاری کردیتے ہیں ان کے لیڈروں کو نظر بند کردیتے ہیں لیکن کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں شدت پسندی کا زہر بڑھتا جارہا ہے جس کا ایک واقعہ ہمیں بہاولپور میں نظر آیا ہے ۔
بہاولپور کے ایس ای کالج میں بی ایس انگلش کے پانچویں سمسٹر کے طالب علم نے اپنے پی استاد کو دردناک طریقے سے قتل کردیا جس پر قاتل نے موقف اختیار کیا کہ اس کے استاد کالج میں ایک تقریب کا انعقاد کررہے تھے اس کے نزدیک یہ تقریب غیر مذہبی تھی ۔ مقتول جو پانچویں سمسٹر کا طالب علم تھا اس کا پس منظر تو بظاہر جنونی کا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس نے اپنی تعلیم کا شعبہ بھی ” کافر کی زبان ” کو منتخب کیا اس دوران اس نے شدت پسندانہ سوچ کے ہتھے چڑھا اور یہ سنگین قدم اٹھایا۔ دوسری طرف مقتول پروفیسر خالد حمید کے بیٹے ولید خان کا موقف بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے متنازع موضوع کو گفتگو کا کبھی بھی حصہ نہیں بنایا قاتل کی جانب سے یہ اقدام سراسر انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے انہوں نے حکومت سے سوال بھی کیا کہ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے کیا کار روائی کی ہے ۔ آج ایک عام شہری ولید خان سے لیکر بلاول بھٹو زرداری تک سب یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر کیا کام کیا ہے ؟اور کیا ہمارا مستقبل محفوظ ہے ؟
فیس بک کمینٹ