ہم سب قر یبی عمارت میں مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت پٹھانے خان اور ثریا ملتانیکر کےمنتظر تھے ۔ پٹھانے خان اپنے سازندوں کے ہمراہ پہنچ گیا۔ ثریا آ ئیں تو بڑے تپاک سے ملیں ۔ وہ یاد کرنے لگیں جب میں ملتان میں تھا ۔ ثریا ملتا نیکر کو پرائیڈ آف پرفار مائنس کے اعزاز سے نوازا جارہا تھا ۔ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے ان کی رضا مندی کے بارے جانا چاہا تھا۔ وہ خوش تھیں بڑے درد سے کہنے لیں ، طارق بابا اگر اب حکومت مجھے اس اعزاز سے نہ نوازے تو پھر ایسا کب ہو گا ۔ اثر یانے محض ایک جملے میں بہت کچھ کہہ دیا۔ثر یا یقینا ایک عہد کی نمائندگی کر رہی تھیں ۔ میں سکول کا طالب علم تھا جب ان کی سوز بھری آواز میں ریڈیو پاکستان سے غزلیں اور کافیاں براڈ کاسٹ ہوا کرتی تھیں ۔’بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے‘
ان کی اس غزل نے بہت سوں کو متاثر کیا۔ کھانے سے فارغ ہوۓ تو مہمانوں نے پنڈال کا رخ کیا کرسیوں پر نشستیں سنبھال لیں ۔ مقامیفنکار صحرائی گیت اورلوریوں سے حاضرین کو محظوظ کر رہے تھے، جیسے ہی یہ سلسلہ ختم ہوا پٹھانے خان نے کافیوں کا جادو جگا دیا۔ ثریا ملتا نیکر نے کا فیوں اور غزلوں پر خوب داد وصول کی۔
رات ڈھل چکی تھی۔ تقریب کے اختتام کا اعلان ہوا۔ مجمع تتر بتر ہورہا تھا لوگوں کی اکثریت کھلے آسمان تلے پڑاؤ لیے ہوئے تھے، فنکار بہاول پور ملتان لوٹ رہے تھے، میرا قیام قریبی چولستان ریسٹ ہاؤس میں تھا۔ میری نظریںسلجوق کی متلاشی تھیں ۔ ہجوم چھٹا تو لوگ ٹولیوں میں بٹ گئے ۔سلجوق سلام کے لیے ملا تو میں نے اسے اپنے ہمراہ چلنے کے لیے کہا تاکہ وہ ریسٹ ہاؤس میں آرام کی نیند سو سکے۔ اس نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی ۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ رات کھلے تلے اپنے سلیپنگ بیگ میں گزارنا چاہتا تھا۔ میں اس کی یہ کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ قدرت کی رعنائیوں کے ساتھ مکالمے میں وہ کسی قسم کی رکاوٹ نہیں چاہتاتھا اور پھر بیٹا بھی کس باپ کا تھا جس نے اپنی جوانی بو ہموئین کی طرح گزاری تھی ۔
کیا۔
( خود نوشت دام خیال سے اقتباس )
فیس بک کمینٹ