انتخابات میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور اب زبان خلق پر یہ بات چڑھی ہوئی ہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف کے لئے میدان ہموار اور مسلم لیگ (ن) کے لئے حالات کو ناموافق اور مشکل بنانے کی حتی الامکان کوشش کی جارہی ہے۔ یوں تو کسی پارٹی کی مقبولیت کا دار و مدار مختلف حلقوں میں اس کے امید واروں کی کارکردگی اور عوام میں پذیرائی کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے تحریک انصاف کے حوالے سے جب بھی اور جو بھی یہ کہتا ہے کہ 25 جولائی کو اس کے امیدوار بڑی تعداد میں جیت سکتے ہیں تو وہ اس کی وجہ ایسی نادیدہ قوتوں کو قرار دیتا ہے جو دکھائی تو کسی کو نہیں دیتیں لیکن انتخابات کے علاوہ ملکی سیاست میں بھی ان کے نقوش پا سے گریز ممکن نہیں ہے۔
اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی کہا جائے گا کہ اگر بیشتر تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے اندازوں کے مطابق ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہوتی ہے تو یہ نہایت مشکوک انتخابات میں ایک ایسی پارٹی کی کامیابی ہوگی جس نے 2013 کے بعد سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا اور جس کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ بار اس کی ناکامی کی وجہ انتخابات میں دھاندلی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو تحریک انصاف کے علاوہ ہر سیاسی پارٹی اور مبصر مشکوک اور پری پول رگنگ کا شاہکار قرار دے رہا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے لئے عمران خان کی خواہش اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لئے انہوں نے جو سیاسی قیمت ادا کی ہے، اس کے بارے میں آنے والا وقت شاید انہیں غور کرنے اور پچھتانے کا موقع بھی فراہم نہ کرے۔
جائزوں ، تبصروں اور اندازوں میں تحریک انصاف کی کامیابیوں کے جلو میں اب بھی یہ سنگین شبہ موجود ہے کہ انتخاب میں تحریک انصاف کی کامیابی کے باوجود شاید عمران خان خود وزیر اعظم نہ بن سکیں اور معلق پارلیمنٹ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے انہیں شاید اپنے اس ’استحقاق‘ سے دستبردار ہونا پڑے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ سب سیاسی جائزے اور اندازے اب اس نکتہ پر اتفاق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ تحریک انصاف انتخابات کی کامیاب ترین اور مسلم لیگ (ن) ناکام ترین جماعت ہوگی۔ یعنی تحریک انصاف سابقہ قومی اسمبلی میں اپنی تیس نشستوں کے مقابلے میں ساٹھ ستر یا شاید نوے اور ایک سو تک نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے جبکہ مسلم لیگ (ن) سوا سو سے زائد نشستوں کی بجائے اب ساٹھ ستر کی حد بھی پار نہ کرسکے۔ بیشتر اندازوں میں کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ن) سے کچھ نشستیں زیادہ مل سکتی ہیں لیکن براہ راست منتخب ہونے والے 272 ارکان قومی اسمبلی میں اگر اسے نوے سے زیادہ نشستیں نہ مل سکیں تو اس کے لئے کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اشتراک کے بغیر حکومت بنانا مشکل ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کو گزشتہ ایک برس کے دوران قوت بخشنے والے عناصر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ملک کا آئیندہ وزیر اعظم دوسرا نواز شریف بننے کی کوشش نہ کرے۔ اس لئے خود مختار ، ضدی اور فیصلوں پر ڈٹ جانے کی شہرت رکھنے والے عمران خان کسی ایسی طاقت کے لئے قابل قبول نہیں ہو ں گے جو امور حکومت کو اپنی صوابدید اور اصولوں کے مطابق چلوانا ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سمجھتی ہو۔ پاکستان میں جمہوریت کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ جب ان قوتوں نے براہ راست مداخلت نہیں کی ، تب بالواسطہ طور سے فیصلے انہی بنیادوں پر ہوئے جو ملک کی ہئیت مقتدرہ طے کرتی رہی ہے۔ جس وزیر اعظم نے اس ’ریڈ لائن ‘ کو عبور کرنے کی کوشش کی اسے چلتا کیا گیا بلکہ اکثر صورتوں میں نشان عبرت بنانے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس کی تازہ ترین مثال جیل کی کوٹھری میں بند نواز شریف ہیں۔
عمران خان بظاہر صاف شفاف ساتھیوں کے ساتھ سیاست میں تبدیلی لانے کی طویل جد و جہد کرنے کے بعد بہر صورت انتخاب جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے لئے ہر قسم کا سمجھوتہ کرنے اور پارلیمنٹ کا اختیار اور حیثیت کم کرنے کی ہر پابندی کو قبول کرنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ وہ خود الیکٹ ایبلز کو کامیابی کی کنجی قرار دے چکے ہیں ، اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ عمران خان نہ صرف سیاست کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرچکے ہیں بلکہ اب وہ اسی پاکستان کو نیا پاکستان سمجھتے ہیں جس میں وہ خود وزیر اعظم ہوں گے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے دیگر سیاست دانوں کی طرح انہوں نے مفاہمت و مصالحت کرنے کے علاوہ اب دھاندلی کے ذریعے انتخاب جیتنے کی تہمت بھی قبول کرلی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہ بھاری قیمت ہے جو تبدیلی کا نعرہ لگانے اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کا خواب دکھانے والے لیڈر کو ادا کرنی پڑی ہے۔
عمران خان اپنے اس سیاسی زوال پر مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے یہ قیاس غلط بھی ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اختیار پارلیمنٹ میں واپس لائیں گے یا وزیر اعظم کو اس کا وہ جائز مقام و مرتبہ دلوانے کی کوشش کریں گے جو موجودہ نظام میں بوجوہ منتخب وزیر اعظم کو دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ یہ صرف عمران خان کی سیاسی جد و جہد کے لئے ہی المیہ نہیں ہو گا بلکہ ملک میں منتخب سیاسی قوتوں کو بااختیار بنانے کی تمام تر کوششوں کے لئے کئی قدم پیچھے کا سفر قرار پائے گا۔ 2018 کے انتخابات ایک ایسے ماحول میں منعقد ہورہے ہیں جس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے ذریعے ایک خاص پارٹی کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میڈیا پر کسی سول نظم حکومت میں بدترین کنٹرول اور دباؤ کے ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جو اس وقت دیکھنے میں آرہے ہیں۔
دہشتگردی کے متعدد واقعات خوف میں اضافہ کرچکے ہیں اور متعدد انتہا پسند تنظیمیں اور ان کے رہنما کسی نہ کسی نام سے انتخاب میں شان و شوکت سے شریک ہورہے ہیں۔ اور جب ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے وفد نے الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کئی کالعدم انتہا پسند تنظیموں کے لیڈر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تو انہوں نے وفد سے استفسار کیا کہ ’ مجھے تو یہ بتائیے کہ کیا کوئی کالعدم تنظیم متحرک ہے‘۔
الیکشن کمیشن کی بے بسی تو اس بات سے بھی عیاں ہے لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اشتہاروں پر آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تصویریں لگانے والے تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے امید وار کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق دے دیا ہے حالانکہ الیکشن کمیشن نے اس حرکت کو انتخابی قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس شخص کو انتخاب میں حصہ لینے کا نااہل قرار دیا تھا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ تحریک انصاف ہی کے سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری کی اہلیت کے بارے میں اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت مرحمت کرچکی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے البتہ آج نواز شریف، مریم نواز اور صفدر نواز کی احتساب عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیلوں کی سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کردی ہے۔ ان اپیلوں میں احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان تینوں کی ضمانت قبول کرنے کی استدعا کی گئی تھی لیکن ہائی کورٹ کو ابھی اس معاملہ کو نمٹانے کی جلدی نہیں ہے حالانکہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر 6 جولائی کے فیصلہ میں نااہل ہونے سے قبل قومی اسمبلی کے حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ احتساب عدالت کے فیصلہ کو معطل کرتے ہوئے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دے سکتی تھی لیکن اسے مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اس فیصلہ کے قانونی پہلوؤں سےقطع نظر اس کے سیاسی مضمرات کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ہائی کورٹ پر بد نیتی کا شبہ کئے بغیر یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر شریف خاندان کو ریلیف دے دیا جاتا تو اس تاثر کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی کہ عدالتیں مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کے لئے اسٹبلشمنٹ کا ہتھیار بنی ہوئی ہیں۔
ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے بعد اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن کے مطابق یہ انتخابات نہایت غلیظ ہوں گے اور انہیں مائیکرو مینیج کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کالعدم انتہا پسند تنظیموں کے لیڈر کھلے عام انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ، انتخابی ریلیوں پر متعدد دہشتگرد حملے ہوچکے ہیں اور میڈیا کو دبانے کے لئے خفیہ ایجنسیاں متحرک ہیں۔ تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی کم و بیش ہر سیاسی پارٹی بھی انتخابات سے پہلےسامنے آنے والے اقدامات کو انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔ ہیومن رائیٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت توڑنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ان الزامات اور اندیشوں کے باوجود عمران خان کو یقین ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم بنیں گے۔ اب متعدد تجزیہ نگار بھی ان کی رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کو ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ان حالات میں اور ایسے مشکوک انتخابات کے نتیجہ میں وزیر اعظم بن کر وہ کیا مقاصد حاصل کرپائیں گے۔ وہ اپنی بدکلامی سے ایک ایسا سیاسی ماحول بناچکے ہیں جو شرافت اور تہذیب کے تمام اصولوں سے متصادم ہے۔ ملک میں سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ عمرا ن خان جس لب و لہجہ میں نواز شریف اور آصف زرداری کا ذکر کرتے ہیں ، اس سے سیاسی تقسیم میں ذاتی نفرت کا جذبہ بطور خاص شامل ہوچکا ہے۔ یہ طریقہ کار معاشرے میں جو مزاج تشکیل دے رہا ہے، مستقبل میں حکومت سنبھالنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔
انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت پر شور و غل بپا ہونے کے باوجود ان اداروں کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے جو اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح اس پیغام کو عام کرنے کا کوشش کی گئی ہے کہ اختلاف یا تنقید سے ’ریاست‘ کے مفاد کے نقطہ نظر سے ہونے والا کام روکا نہیں جا سکتا۔ اسٹبلشمنٹ اس وقت سب سے اہم انتخابی طاقت کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ تجزیہ نگار اسٹبلشمنٹ کے اس کردار کی روشنی میں ہی عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ لیکن طاقت کے اس مظاہرے اور تبصروں میں یہ فراموش کیا جارہا ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے اسٹبلشمنٹ کے خلاف رائے بھی اسی تیزی سے مستحکم اور مضبوط ہورہی ہے۔ ملک میں ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہؤا ہے جو سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں یا ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ صورت حال انتخابی نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن اگر اس کا قابل ذکر اظہار 25 جولائی کےانتخاب میں دکھائی نہ دیا تو بھی ملک کے مسلمہ نظام کے خلاف عوام کا بڑھتا ہؤا غم و غصہ چند ہفتوں بعد بننے والے وزیر اعظم اور اسٹبلشمنٹ کے لئے نئی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس تصادم میں پاکستان کے مفادات متاثر ہوں گے اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ