دانشوران باکمال خبر دیتے ہیں اور حکومت کے سربراہ اور وزیران باتدبیر اعتراف کرتے ہیں کہ اب طاقت کے سب مراکز ایک پیج پر ہیں۔ یہ ہم آہنگی اتنی ہمہ جہت اور مکمل ہے کہ اس سے کرتار پور راہداری جیسا شاہکار برآمد کرلیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی عزت و توقیر میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے اور بھارت بوکھلاہٹ میں اس کی مخالفت پر اترا ہؤا ہے۔ لیکن راہروان باخبر کی اطلاع ہے کہ اسے بالآخر دھول چاٹنا پڑے گی اور پاکستان کی یک پیج والی حکومت نے کرتار پور میں سنگ بنیاد کے ذریعے اسے جو دھوبی پٹرا دیا ہے، اس کے نتیجے میں اسے ہاتھ جوڑ کر کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرکے بر صغیر میں قیام امن، خوشحالی اور وسیع تر عوامی مفاد کے پاکستانی ایجنڈا کو قبول کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ایجنڈا عوام دوستی پر مشتمل ہے اور پاکستان کی یک جہتی والی سرکار پاکستانی لوگوں کے علاہ بھارت کے سو ا ارب عوام کو بھی استبداد اور ظلم کے گرداب سے نکالنا چاہتی ہے۔
یہ ایک عظیم مقصد ہے لیکن اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے جو تصویر نقش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے بعض پہلو نہایت بھیانک اور بعض ناقابل فہم ہیں۔ پاکستان دنیائے اسلام کا چمپئین ہونے کے علاوہ اب جنوبی ایشیا کا لیڈر بننے کی راہ پر ضرور گامزن ہے لیکن اس کے لئے زاد راہ میسر نہیں ہے۔ ملک کو فی الوقت ادائیگیوں کا توازن پورا کرنے کے لئے وسائل فراہم کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے قرض لینے کو قومی وقار کے منافی اور لعنت قرار دینے کے مؤقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے قومی مفاد میں کاسہ گدائی اٹھانے کا قصد ضرور کیا ہے لیکن پاکستانی معیشت اور سیاست پر ماضی کے سائے اتنے گہرے ہیں کہ ان سے نجات حاصلکیے بغیر نیا راستہ پاٹنا اور پرانے دوست ملکوں کو بھی اپنی نیک نیتی کا یقین دلانا آسان کام نہیں۔ یہی الجھن اس وقت حکومت کے راستے کا سب سے بڑا پتھر بنی ہوئی ہے
اس مشکل کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کے اسباب کرنے کی بجائے ایسے اہداف کا تعین کیا جارہا ہے جنہیں حاصل کرلینے کے بعد بھی اس قوم کو درپیش مسائل کا حل تلاش نہیں ہو سکے گا۔ ملک کو معاشی دباؤ اور عالمی سیاسی و سفارتی تنہائی سے نکالے بغیر قومی وقار، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ناقابل تسخیر دفاع کے دعوے کھوکھلے نعروں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے جو حکومت بھی مستقبل کی طرف سفر کا قصد کرے گی خواہ وہ تن تنہا ہو یا ملکی اداروں کے ساتھ ایک ہی کشتی کی سوار ہوجائے، سرکش موجیں ہی اس کا مقدر ٹھہریں گی۔
ملک کا نظام جس آئین اور جمہوری روایت پر استوار ہے حکومت کا موجودہ انتظام اسے کمزور کرنے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ منتخب سول حکومت کو ایک پیج پر لانے کے لئے جولائی 2018 کے انتخاب میں من پسندپارٹی اور لیڈر کو اقتدار میں لانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جن عوامل کو سابقہ حکومت کا راستہ کاٹنے کے لئے مؤثر طریقے سے استعمال کیا گیا تھا، اب انہی پر ملک سے غداری اور بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کا اعلان یہ واضح کرتا ہے کہ ایک پیج پر ہونا اور یک جہتی کس چڑیا کا نام ہے۔ اس طرح یہ انتظام تو ضرور کرلیا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سول ملٹری تنازعہ اور نت نوع ادارہ جاتی مطالبات کا طویل سلسلہ روک دیا گیا ہے لیکن ملک کو جس اصول کے تحت چلانے کا عہد انتخابات کے ذریعے کیا جاتا ہے اسے پس پشت ڈالا جارہا ہے۔
حالات سے نمٹنے کے لئے حکومت اور نظام پر عوام کے جس بھروسہ اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، ا س کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ اعتماد سازی کے نام پر نعروں، سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور میڈیا پر پابندیاں لگانے کا سلسلہ صورت حال کو گمبھیر اور پیچیدہ کررہا ہے۔ گو کہ یہ حکمت عملی سیاسی حامیوں کے ایک بڑے گروہ کو مطمئن اور خوش کرنے کی مناسب حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن جب معاشی سطح پر امکانات پیدا نہیں ہوں گے اور عوام پرافراط زر اور ملک کی دگرگوں اقتصادی حالت کی وجہ سے مالی بوجھ میں اضافہ ہوگا تو واہ واہ کے نعرے لگانے والوں کے لئے بھی اس سحر میں تادیر مبتلا رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایسے وقت میں ایک پیج کی ایک ٹانگ پر کھڑی حکمت عملی زیادہ دیر مؤثر اور کارگر نہیں ہو سکتی۔
اس حوالے سے دو پہلو بے حد اہم ہیں۔ کسی بھی محب وطن کے لئے اہم اداروں کا حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کی خبر خوش آئند اور مثبت ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ جاننا اور یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ اس انتظام میں ان بنیادی آئینی اور جمہوری ضرورتوں کا خیال رکھا جائے جن کا وعدہ ملک کے عوام سے ووٹ مانگتے وقت کیا گیا تھا۔ اگر اس بنیادی وعدے سے انحراف کی صورت پیدا کی جارہی ہے اور اسے قوم کی خوش قسمتی، ترقی اور نئے پاکستان کی تشکیل کا نام دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو نہ تو یہ دھوکہ زیادہ عرصہ تیر بہدف نسخہ کے طور پر کام آسکتا ہے اور نہ ہی اس سے قبولیت اور اعتماد کا وہ ماحول پیدا ہوگا جو ملک کو معاشی اور سفارتی بھنور سے نکالنے کے لئے ضروری ہے۔
اس انتظام میں دوسری بڑی قباحت یہ ہے کہ ایک خاص پارٹی کو اقتدار میں لانے کا اہتمام کرنے کے بعد اسے کٹھ پتلی کی طرح اسی ایجنڈا پر کام کرنے پر مامور کیا گیا ہے جو پہلے ہی ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جب تک اس حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے اور ماضی کے برسوں میں کی گئی سیاسی، سفارتی اور معاشی غلطیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اصلاح کا راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا، صورت حال میں بہتری کی کیفیت پیدا ہونا محال رہے گا۔
جمہوری نظام میں اداروں اور حکومت کے درمیان یک جہتی کا راستہ پارلیمنٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جب اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو با اختیار کرنے اور اس کا کھویا ہؤا وقار بحال کرنے کے لئے کام کا آغاز کریں گے۔ لیکن عملی طور سے جب یہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ تو پہلے سے بھی زیادہ بے بس اور لاچار ادارہ بن چکا ہے اور عمران خان آئینی خود مختار اداروں کی خود مختاری ختم کرکے انہیں اپنی دسترس میں لانے کے اقدام کرنا چاہتے ہیں اور اسے ہی اداروں کی خود مختاری اور قوت کا نام دیتے ہیں تو اس سے شبہات بھی پیدا ہوں گے اور صورت حال بھی دگرگوں ہوگی۔
نیب ہو، پیمرا ہو یا ایف آئی اے۔ انہیں خود مختار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت ان اداروں کو اپنی مرضی کے ایجنڈے کے مطابق کام کرنے پر راضی کرنے کا اقدام کرے بلکہ اس سے یہ مراد لی جانی چاہیے کہ یہ ادارے اپنے طے شدہ مینڈیٹ کے مطابق حکومت کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی پرواہکیے بغیر ان اہداف کے لئے کام کرسکیں جو ان اداروں کو ملک کا آئین اور قانون سونپتا ہے۔ لیکن جب یہ دیکھنے میں آئے گا کہ آئینی طور سے خود مختار اداروں کے سربراہان بھی خود کو وزیر اعظم کی خوشنودی پر مجبور پائیں گے اور اداروں کو اپوزیشن یا مخالفین کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کرنا ہی قومی مفاد کا بنیادی نکتہ قرار پائے گا تو یہ کہنا پڑے گا کہ وزیر اعظم کو اداروں کی خود مختاری کے بارے میں اپنی تفہیم درست کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ انتظام ایک تو مسائل کا کوئی مناسب حل پیش کرنے میں ناکام ہے دوسرے یہ ملکی آئین کے تقاضوں کو پامال کرنے کا سبب بن رہاہے۔ اب یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قابل قبول اور قابل عمل حکومتی انتظام کے لئے پارلیمنٹ کا مؤثر کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اداروں کی خوشنودی کے لئے کام کرنے والی حکومت تازہ خیالات اور اہداف متعین کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے پارلیمنٹ کو باختیار بنانے کی بجائے پہلے سے موجود پارلیمانی روایات کو پامال کرنے کا تہیہ کیا ہؤا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو غیر ضروری طور پر نیب کی تحویل میں رکھا گیا ہے لیکن وزیر اعظم کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بلکہ وہ اسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔
عمران خان نام لے کر سیاسی لیڈروں کو جیل جانے کی نوید سناتے رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کو راہ راست پر گامزن کرنے کے لئے یہی واحد راستہ ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سابق فوجی آمر پرویزمشرف بھی یہی نعرہ لگاتے ہوئے برسراقتدار آیا تھا اور جس این آار او کا ذکر کرکے وزیر اعظم کسی کو بھی معاف نہ کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں وہ اسی فوجی آمر کا اعتراف شکست تھا جو بے نظیر اور نواز شریف کو ملکی سیاست سے جزو معطل کی طرح زائل کرنے کا اعلان کرتا رہا تھا۔ ماضی قریب کے اس وقوعہ سے عبرت حاصل کرنے اور وہی راستہ اختیار کرنے سے گریز کی ضرورت ہے جس کا انجام ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
ملک کے عوام کو اپنے لیڈر اور نمائندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ حقدار کو یہ حق اسی وقت پہنچ سکتا ہے جب عوام کے انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوششیں ترک کی جائیں اور منتخب نمائندوں کو مناسب مقام و احترام بھی دیا جائے۔ وزیر اعظم جب نئے پاکستان کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے جوش میں تمام سیاسی مخالفین کے حق نمائندگی کو مسترد کرتے ہیں، تو دراصل وہ اس بنیادی اصول سے انحراف کرتے ہیں جو ان کی پارٹی کو بھی سب سے بڑی پارٹی بنوانے کا سبب بنا ہے۔ اس پریشان خیالی اور متضاد رویہ کے ساتھ ملکی معاملات میں بہتری کی امید کیسے ممکن ہے۔
گو کہ خوش نوایان چمن کا اصرار رہتا ہے کہ ادارے ملکی نظام کے استحکام کی واحد ضمانت ہیں اور اس ملک میں کوئی جمہوری انتظام اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسٹبلشمنٹ اسے اپنے سایہ شفقت سے سرفراز نہ کردے۔ ایسی صورت میں جمہویت کی ازسر نو توجیہ کرنا پڑے گی اور ملکی آئین کو ایک ناقابل قبول جراحی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ جمہوریت کے نام پر قائم حکومت بنیادی حقوق اور آزادیاں سلب کرنے کو ا پنی کامیابی قرار دے کر منزل مقصود تک نہیں پہنچ پائے گی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ