ملک میں اس وقت قومی اتفاق و یک جہتی کی جو کیفیت موجود ہے اس نے ایک طرف قومی مسائل کو حل کرنے کے لئے امکانات کے بہت سے در واکیے ہیں تو دوسری خوف کی کیفیت بھی سر اٹھا رہی ہے۔ مسائل بدستور موجود ہیں اور حکومت کے دعوؤں میں کسی قسم کی کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس صورت حال میں اہم ترین سوال یہ ہے اگر ملک کی تاریخ میں پہلی بار تمام ا ادارے ایک ہی ’پیج‘ پر ہیں۔ فوج کے ترجمان حکومت کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنا عین فرض منصبی سمجھتے ہیں اور وزیراعظم بات بے بات حکومت اور فوج کے درمیان اتفاق رائے اور ہم آہنگی کی کہانی سناتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ساتھ اتفاق رائے کی صورت حال یہ ہے کہ چیف جسٹس ڈیم بنانے کا آغاز کریں یا آبادی کو کنٹرول کرنے کی بات کریں، وزیر اعظم کے علاوہ فوج کے سربراہ اسے قومی خدمت کا عظیم کارنامہ سمجھ کر ہاتھ بٹانے کو آگے بڑھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی آئیڈیل صورت حال ہے کہ حکومت مسائل حل کرنے اور قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا کام پر پوری مستعدی سے کرسکتی ہے۔
اتفاق رائے کی برکتوں کو عام کرنے کے لئے یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ ملک کا میڈیا پورے دل و جان سے قومی احیا کے کاموں میں حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے اگرچہ صرف چھے ماہ کے لئے مثبت پہلوؤں پر بات کرنے کا تقاضہ کیا ہے لیکن ملک کے اخبارات اور ٹیلی ویژن اسٹیشن پوری یک سوئی سے حکومت وقت کے ’بھونپو‘ بننے کے لئے طویل المدتی منصوبہ پر کام کا آغاز کرچکے ہیں۔ ملک کے عامل صحافی بہت پہلے سے دال روٹی کے چکر میں اپنے پیشہ وارانہ حقوق کی بات کرنے سے محروم کردیے گئے ہیں۔ ان کی تنظیموں کو تقسیم در تقسیم کے عمل نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ اب وہ ہر حکومت وقت سے مراعات لینے کے لئے منت سماجت کرنے سے زیادہ کوئی کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔
22 کروڑ آبادی کے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا مبسوط و منضبط ادارہ موجود نہیں ہے جہاں آزادی رائے، خبر کی اہمیت و ترسیل کی ضرورت اور تبصرہ و تجزیہ کی حرمت و توازن پر گفتگو کی جا سکے اور ان حدود کا تعین ہو سکے جو پروان چڑھتے میڈیا کی ضرورتیں پوری کرسکے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان خود ساختہ ایڈیٹر بنے بیٹھے ہیں اور کئی کئی ماہ کی رکی ہوئی تنخواہ وصول کرنے کی امید پر ورکنگ جرنلسٹ خود پسندی اور کمرشل ضرورتوں کی بنیاد پرکیے جانے والے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہیں۔
پندرہ برس قبل ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے ساتھ ہی اینکر اور سینئر تجزیہ کار کے نام سے آزاد صحافت کے علمبرداروں کا ایک خاص اور مؤثر گروہ پیدا کیا گیا تھا۔ ان کی باتیں سن کر اور ان کا طرز زندگی دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ ملک کا سارا انتظام بس ان کی دیانت اور ایمانداری کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ لاکھوں میں کھیلنے اور سونے کا نوالہ کھانے والے اس مراعات یافتہ طبقہ کو جن میں سے نصف سے زائد کا تعلق عملی صحافت سے نہ ہونے کے برابر تھا، ملک میں آزادی رائے کی علامت بنا دیا گیا۔
یہ اینکر اور تجزیہ کار مالکان کی ناک کا بال بنے اور عامل صحافی کی مجبوریوں اور کیفیت سے بے خبر ریٹنگ کے لئے ٹی وی شوز پر خبروں کو بکاؤ مال بنانے کے ہنر میں طاق تھے۔ ان کے رہن سہن اور قول و فعل سے کبھی یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ میڈیا مالکان کی پراکسی ہیں یا ملک میں صحافت کے ماتھے کا جھومر۔ اب یہ جھومر صرف اس وقت جگمگاتا ہے جب سیاست دانوں کی نالائقی اور بد نیتی کا مرثیہ پڑھتے ہوئے وہ تبدیلی کے لئے اداروں کے استحکام کا قصیدہ سناتے ہیں۔ قومی سلامتی کے نت نئے پہلو بیان کرتے ہیں اور عوام کو باخبر رکھنے کے لئے ان قربانیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری اداروں نے انجام دی ہیں۔
موجودہ منتخب حکومت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اگرچہ وہ چھوٹے چھوٹے سیاسی اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے لیکن لڑکھڑانے کا نام نہیں لیتی۔ وہ غلطیاں کرے یا اس کے نمائیندے بے بنیاد بیانات سے قوم کو نوازیں، ملک کا میڈیا ان کی خوبیاں بیان کرنے اور جے جے کار کرنے پر متعین ہو چکا ہے۔ کیوں کہ مالکان کو اشتہارات اور مراعات کا راتب اسی شرط پر میسر آتا ہے۔ کہنے کو اس وقت قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھاری بھر کم سیاسی اپوزیشن موجود ہے لیکن اس کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی اگر سنائی دیتی ہے تو یہ آواز کہ نواز شریف خاموش کیوں ہیں۔
اور یہ کہ بالآخر نواز شریف نے میڈیا سے کہہ دیا ہے کہ اگر وہ کوئی بات کریں گے تو کون سا اس نے کسی اخبار میں شائع یا ٹی وی پر نشر ہونا ہے۔ گویا ملک میں خود کو جمہوریت کے سب سے بڑے چمپئین کے منصب پر فائز کرنے والا لیڈر بھی میڈیا کی آزادی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر نہ صرف خود قبول کررہا ہے بلکہ میڈیا کو بھی مشورہ دے رہا ہے کہ وہ اسے اکسانے کی بجائے خود بھی وہی کرے جو اس سے کہا گیا ہے۔
اس حکمت عملی کی مزید تفصیل قومی اسمبلی کے رکن اور سابق وزیر سعد رفیق نے یوں بیان کی ہے کہ ملک میں گو سول مارشل لا نافذ ہے لیکن اپوزیشن اس موقع پر کوئی احتجاجی سیاست کرنے سے گریز کی حکمت عملی پر گامزن ہے تاکہ موجودہ نظام چلتا رہے۔ نواز شریف کی طرح سعد رفیق بھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کون سے نظام کی بات کررہے ہیں۔ اس نظام کی جہاں بات کرنے کی آزادی مفقود کردی گئی ہے یا جہاں نیب پر سیاسی فیصلے کرنے اور عدالتوں پر آزادیاں اور حقوق سلب ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہنے کا الزام عائد ہو رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں سول مارشل لا کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی سول مارشل لا کو جمہوری نظام قرار دے کر اس کی حفاظت کا قصہ سنایا جاتا ہے۔ یہ بوالعجبی سمجھنے اور سمجھانے سے ماورا ہے۔
شریف خاندان ہو یا آصف زرداری اور ان کے رفقا۔ انہیں کرپشن کے الزامات کا جواب دینے پر لگا دیا گیا ہے۔ یا وہ اس بات کی فکر میں غلطاں ہیں کہ انہیں قید کر کے جیل میں نہ ڈال دیا جائے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے بچ کر چلنا ہی مناسب ہے۔ لیکن بے بسی کے اس عالم میں یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت خود اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دب کر ناکام ہوجائے گی۔ گویا ملک کی سب نمایاں سیاسی طاقتوں کا انحصار اپنی حکمت عملی، فکری شعور، عوامی حمایت یا جمہوری اقدار پر نہیں ہے بلکہ وہ لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات میں اس مرحلے کا انتظار کررہے ہیں جب نظام کے پاسبان موجودہ محافظوں کی صلاحیت سے دل برداشتہ ہو کر ایک بار پھر پرانے کرداروں کی طرف رجوع کریں گے۔
اس صورت حال میں ایک دلچسپ پہلو سوشل میڈیا کے کردار کا بھی ہے۔ سرکاری طور سے منظور شدہ بیانیہ عام کرنے والے گروہ یا افراد پوری دل جمعی سے جھوٹ سچ کو عام کرنے میں آزاد ہیں لیکن اختلافی بات کرنے والوں کو سائبر کرائم لا زکی زد میں آتے دیر نہیں لگتی۔ ملک میں لاپتہ کیے جانے کا کلچر بدستور قومی مفاد کے تحفظ کا محفوظ ترین اور مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل آزادی سے اپنی دیانتدارانہ رائے سامنے لانے کا فورم سمجھنے کی غلطی کرنے والوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے نادان اٹھا لئے جائیں تو لواحقین ان کے چند ماہ یا سالوں بعد بازیابی کو بھی غنیمت جانتے ہیں۔ کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ شاید یہی نظام بچانے کے لئے سعد رفیق جیسے لیڈر ’خاموشی‘ کو طاقت قرار دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف مکمل قومی یک جہتی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں تو دوسری طرف مکمل سنّاٹا دل ہولانے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ اس سنّاٹے کی تکمیل کے لئے ان چند آوازوں کو پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا سے فارغ کیا جا رہا ہے جو اس کی طرف انگلی اٹھانے کا حوصلہ کرتی ہیں۔ اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر مستقل لکھنے والوں کے کالموں کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیتے ہوئے ناقابل اشاعت سمجھا جاتا ہے۔ بعض ڈھیٹ اور بلند آہنگ لوگوں کو بتا دیا گیا ہے کہ اب اخبار یا ٹی وی کا بجٹ ان کے مصارف برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ملک میں کوئی سنسر شپ نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات آکسفورڈ تک جاکر مکمل آزادی صحافت و آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ آئے۔ ملک کے صحافیوں کے پاس اس بیان کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ عدالت لگی ہے۔ جرم تو وہ ہے جو ثابت ہوجائے۔ باقی سب الزام ہیں جو عائد ہوتے رہتے ہیں۔ میڈیا کے کچھ لوگ کلین حکومت اور دیانتدار وزیر اعظم کے بغض میں ایسا شور مچاتے ہیں تو نقار خانے میں ان کی آواز کون سنے گا۔ اس نقار خانے کا آرکسٹرا ان دھنوں پر استوار ہے جس سے طربیہ موسیقی ہی سماعت کو گل و گلزار کرتی ہے۔
ایسی آئیڈیل صورت حال میں امید تو یہی ہے کہ حکومت سالوں کا کام مہینوں میں کرتے ہوئے ملک کو ایک ایسی ریاست بنا دے گی جس کا ذکر قصوں کہانیوں میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ اگر اس کی بجائے وزارتوں کی چھینا جھپٹی اور حکومتوں کی شکست ریخت کی سرگوشیاں ہونے لگیں تو اسے نا اہلی تو نہیں کہا جاسکتا۔ ہم آہنگی کے فراہم کردہ ماحول اور اس مقصد کے لئے پیداکیے گئے سنّاٹے میں یہ سرگوشیاں بھی کہیں دشمن کی سازش ہی نہ ہوں۔
اتفاق و ہم آہنگی کے منظر نامہ کو تخلیق کرنے والوں کو ایک لمحہ ٹھہر کر سوچ ضرور لینا چاہیے کہ قومی احیا کے جس عظیم منصوبہ کی تکیل کے لئے خوف و ہراس کی یہ فضا پیدا کی گئی ہے، کیا وہ تازہ ہوا کے بغیر پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ کہیں قومی اتفاق رائے کا یہ انوکھا سفر ایک نئے افتراق و انتشار کا نقطہ آغاز ثابت نہ ہو۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ