واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ کانگریس میں انتہا پسند ری پبلکن نمائندوں نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ سفارتی ذرائع یہ اطلاعات دے رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کی اقتصادی و فوجی امداد میں کمی کے علاوہ مزید سخت اقدامات کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ ان اقدامات میں قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں از سر نو اضافہ کرنے کے علاوہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریب ترین حلیف کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا امکان بھی ہے۔ مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کرنے سے افغانستان کی صورتحال میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ نہ ہی یہ امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان امریکی دباؤ کے نتیجہ میں اپنی افغان پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی کرے گا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کے شانہ بشانہ جنگ کرتا رہا ہے۔ بلکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ امریکہ نے کئی برس سے پاکستان کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن وہ بدستور پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی حمایت کرنے کا الزام بھی عائد کرتا رہا ہے۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات اور تعاون کا سلسلہ بیک وقت جاری ہے۔ ماہرین کےلئے یہ بات دلچسپی کا موضوع ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسی کیوں کر متاثر ہوگی اور امریکہ کون سے اہداف حاصل کر سکے گا۔
امریکہ کی طرف سے ایک طویل وقفہ کے بعد ڈرون حملوں کے آغاز سے دونوں ملکوں کے درمیان بظاہر کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ امریکی امداد میں کمی اور سفارتی دباؤ کی وجہ سے اسلام آباد پر واشنگٹن کا دباؤ بھی کم ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ پاکستان پر اگر کھل کر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی سے کامیاب جنگ کرنے والا واحد ملک ہے تو پاکستان کےلئے مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کےلئے پاکستان کو چین اور کسی حد تک روس پر انحصار میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ان دونوں ملکوں کے سیاسی ، سفارتی اور اسٹریٹجک مفادات امریکی مقاصد اور اہداف سے متصادم ہیں۔ روس یوکرائن اور شام میں امریکہ کے جارحانہ تسلط کی پالیسیوں کو چیلنج کر رہا ہے جبکہ چین کو تجارتی منڈیوں تک رسائی کے علاوہ بحر جنوبی چین میں امریکی مفادات اور اس کے حلیف ملکوں کی سلامتی کےلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے اور پاک چین اقتصادی منصوبہ کا حصہ بننے کے باوجود امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اب بھی امریکی ہتھیاروں کا خریدار ہے اور دفاعی شعبہ میں کئی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری ہے۔ پاکستان نے مسلسل اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امریکہ میں پرجوش اور عالمی معاملات میں بصیرت سے محروم صدر کی موجودگی اور قدامت پسند عناصر کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کے سبب پاکستان کو یک بیک ایک نئی اور کسی حد تک خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلام آباد سے ابھی تک ایسے کوئی اشارے موصول نہیں ہوئے ہیں کہ وہ اس صورتحال سے کس طرح نمٹنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان کو یہ اندیشہ بھی ہوگا کہ اگر وہ امریکہ سے تعلقات کو محدود کرتے ہوئے چین اور روس کے بلاک میں شامل ہو جائے تو امریکہ اپنا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دے گا۔ گزشتہ برس سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سربراہ کی مداخلت اور مخالفت کی وجہ سے پاکستان کو 8 ایف 16 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ منسوخ ہو گیا تھا کیونکہ امریکی سینیٹرز نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد میں سے 270 ملین ڈالر اس خرید کےلئے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم اب ایف 16 بنانے والی کمپنی لاکر ہیڈ نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدہ کو حتمی شکل دی ہے جس کے نتیجے میں ایف 16 طیارے بھارت میں تیار ہوا کریں گے۔ یہ متضاد صورتحال امریکہ کے حوالے سے پاکستان کی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن پاکستانی حکومتوں اور سفارت کاروں کی یہ خواہش رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک بحال رکھا جائے کہ بھارت کے ساتھ تصادم کی صورت میں امریکہ کھل کر پاکستان کی مخالفت نہ کر سکے۔ اس لئے امریکی دباؤ کی وجہ سے اگر پاکستان اپنی خارجی اور قومی سلامتی کی پالیسیوں میں ڈرامائی تبدیلیاں لاتا ہے تو امریکہ کے ساتھ دوستانہ اور مفاہمانہ تعلقات براہ راست ٹکراؤ اور تصادم کی طرف بڑھیں گے۔ اس طرح بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے واشنگٹن موجودہ متوازن اور غیر جانبدارانہ پالیسی کو بھی برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان اپنی پالیسیوں میں ایسی انقلابی تبدیلیاں لانے کا حوصلہ کر سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی عسکری و سیاسی اشرافیہ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اور اس سے وابستہ مفادات بھی ہیں۔
پاک امریکہ تعلقات کے نئے دور میں امریکی ڈرون حملے اہم کردار ادا کریں گے۔ گزشتہ برس سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے دو ٹوک موقف اور سابق امریکی صدر باراک اوباما کی متوازن پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کو محدود کر دیا تھا۔ اس امریکی فیصلہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی فوج نے 2014 میں آپریشن ضرب عضب کی صورت میں شمالی وزیرستان میں باقاعدہ فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح ان علاقوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کر دیا گیا۔ تاہم اس آپریشن کے نتیجہ میں تحریک طالبان پاکستان کی قیادت نے افغانستان میں پناہ لے لی اور اس نے وہاں سے افغان اور بھارتی ایجنسیوں کے تعاون سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکہ نے شروع میں اس آپریشن پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف اہم پیش رفت قرار دیا گیا لیکن جب اس پاکستان آپریشن کے نتیجہ میں افغان طالبان کی قوت متاثر نہیں ہوئی اور امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو ایک بار پھر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی مدد کرنے کے الزامات سامنے آنے لگے۔ اس دوران افغان صدر اشرف غنی نے بھارت کے ساتھ مراسم استوار کئے اور اب وہ ہر عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے اور افغانستان میں کشیدگی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ کل واشنگٹن میں ایک مذاکرہ کے دوران افغان سفیر نے انہی الزامات کو شدت سے دہرایا اور امریکہ سے پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ اشتعال انگیز موقف اختیار کیا کہ ’’امریکہ جو ہتھیار پاکستان کو دے رہا ہے، وہ ایک روز اسی کے خلاف استعمال ہوں گے‘‘۔ اس موقع پر پاکستانی سفیر نے اس موقف کو مسترد کیا اور دخل اندازی کے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے پاکستان کا دیرینہ موقف دہرایا کہ باہمی بات چیت اور مواصلت سے معاملات طے کئے جائیں۔ لیکن پاکستان کی حکومت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ناکام ہے کہ اگر مخالف فریق بات چیت یا مفاہمت پر تیار نہ ہو تو پاکستان کو کیا کرنا چاہئے۔
ان حالات میں امریکہ اگر پاکستان پر ڈرون حملوں کا آغاز کرتا ہے تو پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کو بلا تخصیص ختم کرنے کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ افغانستان میں دہشت گرد عناصر پاکستان میں پناہ لیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ایک ڈرون حملہ میں حقانی نیٹ ورک کے بعض لیڈروں کو مارنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسے کاؤنٹر پروڈکٹو COUNTER PRODUCTIVE یا منفی اقدام قرار دیا تھا۔ یہ موقف سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس بیان کے مقابلے میں بہت نرم ہے جس میں انہوں نے قرار دیا تھا کہ امریکہ نے ڈرون حملے بند نہ کئے تو اس کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ سوال ہے کہ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں کے از سر نو آغاز پر کیا پاکستان ایک بار پھر سخت موقف اختیار کرنے یا انہیں مار گرانے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ بیان کی روشنی میں ایسا قیاس کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی رائے عامہ ہمیشہ سے ڈرون حملوں کے خلاف رہی ہے۔ عالمی تنظیمیں ان حملوں میں بے گناہ شہریوں کے مارے جانے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی رہی ہیں۔ لیکن پاکستان نے کبھی امریکی ڈرون گرانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ سابق فوجی سربراہان پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی کے دور میں تو اس امریکی حکمت عملی کی درپردہ حمایت کی جاتی رہی تھی۔ اپریل 2011 تک قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کےلئے پاکستان کا شمسی ہوائی اڈہ بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔
امریکہ کے ساتھ اس تبدیل ہوئی صورتحال میں آج یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ پاک فضائیہ کے جے ایف 17 طیارے نے پنجگور کے علاقے میں ایک ایرانی ڈرون مار گرایا ہے جو جاسوسی کےلئے بلوچستان کے علاقے پر پرواز کر رہا تھا۔ ایران کو بلوچستان سے ایران کے سرحدوں محافظین پر حملے کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں پریشانی لاحق رہتی ہے۔ پاکستان ان عناصر کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے ایرانی سرحد پر ناخوشگوار واقعات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اب ان خبروں کے جلو میں کہ امریکہ انسانوں کو ہلاک کرنے کےلئے پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں کا آغاز کر سکتا ہے، ’’جاسوسی‘‘ کے مقصد سے سرحد پار آئے ہوئے ایرانی ڈرون کو گرانے کے واقعہ کو نوٹس کرنا ضوری ہے۔ پاک فضائیہ نے بجا طور سے ایرانی ڈرون کو سرحدی خلاف ورزی کی اجازت نہ دے کر ایک مناسب اقدام کیا۔ لیکن کیا وہ یہ پالیسی امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بھی اختیار کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے یا اس معاملہ میں غیر واضح جواب دے کر اس امریکی جارحیت کو قبول کر لیا جائے گا۔
ایرانی ڈرون کو مار گرانے کا واقعہ مشرق وسطیٰ میں سامنے آنے والے واقعات اور سعودی عرب کی طرف سے ایران اور اس کے حامیوں کے خلاف سخت گیر پالیسیوں کے تناظر میں بھی بے حد اہم ہے۔ کیا پاکستان نے اس کارروائی سے سعودی عرب کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پاکستان کی اصل ہمدردیاں بہرحال سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے آج سینیٹ میں یہ چونکا دینے والے بیان دیا ہے کہ پاکستان اگرچہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ میں غیر جانبدار رہے گا لیکن سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کو منظم کرنے کےلئے جانے والے پاکستان کے سابق فوجی سربراہ راحیل شریف کو واپس نہیں بلایا جائے گا۔ کیونکہ وہ ذاتی حیثیت میں اس اتحاد کی سربراہی کرنے گئے ہیں۔ نومبر 2016 میں فوج کے چیف کے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد جنرل راحیل شریف حکومت کی مرضی اور صوابدید کے بغیر کبھی یہ عہدہ قبول نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے حکومت کا اب اس معاملہ سے لاتعلقی کا اظہار حیران کن ہے۔
مبصر، سرتاج عزیز کے بیان، ایرانی ڈرون گرانے کے واقعہ اور امریکی ڈرون حملہ پر آرمی چیف کے بے ضرر بیان کو ملا کر کسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ ایسے میں حکومت پاکستان کو واضح کرنا ہو گا کہ اس کی ڈرون پالیسی کیا ہے۔ کیا اب یہ طے کر لیا گیا ہے کہ جس طرح ایرانی ڈرون مار گرایا گیا، اسی طرح آئندہ پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی ڈرون بھی پاک فضائیہ کے نشانے پر ہوں گے۔ یا پاکستان ایسی پالیسی اختیار کرے گا جس میں قول و فعل کا تضاد زیادہ واضح ہوگا۔ اور کیا ایران کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان ہمسایہ ہونے کے باوجود عملی طور پر مشرق وسطیٰ میں سعودی عزائم کی تکمیل کےلئے کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)