پاکستان میں دو دہشت گرد حملوں میں 45 افراد جاں بحق اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ حملے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور قبائیلی علاقے کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پاڑہ چنار میں کئے گئے ہیں۔ آج صبح کوئٹہ میں انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر کے باہر ایک خود کش حملہ میں تیرہ افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ مرنے والوں میں سات پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ ابھی اہل پاکستان اس صدمہ کو برداشت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ جمعہ کی شام کو پاڑہ چنار میں دو بم دھماکوں میں درجنوں افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ متعدد زخمی افراد کی حالت نازک ہے، اس لئے ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ جمعتہ الوداع کے روز یہ حملے ایک ایسے موقع پر کئے گئے ہیں جب لوگ عیدالفطر کی خریداری کے لئے بڑی تعداد میں باہر نکلے ہوئے تھے۔ حملہ آوروں کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرنا تھا۔ اس سے حملہ آوروں کی سفاکی اور شقادت کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
حسب دستور ان المناک سانحات پر بھی مذمت اور افسوس کے پیغامات سامنے آرہے ہیں اور یہ اعلان بھی کیا جائے گا کہ حکومت ان عناصر سے سختی سے نمٹے گی اور دہشت گردی کا خاتمہ کئے بغیر حکومت اور پاک فوج چین سے نہیں بیٹھیں گی۔ لیکن اگر ملک میں ہونے والے مباحث اور سیاسی منظر نامہ پر ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں غور کیا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنا ملک کے سیاسی لیڈروں کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ یہ کام فوج کے کرنے کا ہے اور اسی کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی لیڈر خواہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہوں، وہ افسوس کا اظہار کرنے کے بعد سیکورٹی فورسز پر تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ عسکری گروہوں اور مسلح دہشت گردوں سے نمٹنے کا کام فوج اور سیکورٹی اداروں کو ہی کرنا ہے لیکن جو عوامل ان عناصر کو فروغ دینے یا قوت بخشنے کا سبب بنتے ہیں، ان سے نمٹنے کے لئے قانون سازی سے لے کر رائے عامہ تیار کرنے تک کا کام سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو ہی کرنا ہوگا۔ جب وہ صرف نعرے بازی سے کام لے کر اس بنیادی فرض سے رو گردانی کرتے ہیں تو وہ عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ اور بھروسہ پر پورے اترنے میں ناکام رہتے ہیں۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے قوانین کو مؤثر بنانے کے علاوہ ، ملک کے دینی طبقات کو اس حوالے سے کام کرنے کے لئے قائل کرنا، مدرسوں کی نگرانی اور وہاں تدریس کے طریقہ اور نصاب کے بارے میں کنٹرول کا طریقہ کار وضع کرنا بھی ضروری ہے۔ دراصل قومی ایکشن پلان کے تحت ان اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن حکومت اور سیاسی قیادت اس بارے میں مناسب پیش قدمی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لیکن حکومت یہ واضح کرنے میں ناکام ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کو اصل خطرہ سمجھتی ہے ۔ انتہا پسندی کے خلاف صرف گاہے بگاہے بیان جاری کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے وہ تمام عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ، ان کا یہ خوف بھی دور کرسکیں کہ اگر انہوں نے مذہب کے نام پر خوف اور دہشت پھیلانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو کفر کے فتوے لگا کر ان کا منہ بند نہیں کردیا جائے گا۔
ملک میں اس حوالے سے دو پہلوؤں پر غور کرنا اہم ہے۔ ایک توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام اور دوسرے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف مسلسل جارحیت کے رویہ کا خاتمہ۔ جب تک حکومت ان دونوں شعبوں میں قابل ذکر پیش رفت کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی، ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے خلاف کام کا آغاز نہیں ہو سکے گا۔ لیکن پاکستان میں مذہبی گروہ طاقتور ہیں اور سیاست دان ان کے دھمکی آمیز رویہ سے مرعوب رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے توہین مذہب قوانین اور اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی مناسب اقدام دیکھنے میں نہیں آتا۔ اپریل میں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کے بہیمانہ قتل کے بعد قومی اسمبلی نے توہین مذہب کے قوانین کو غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ ایک قرارداد منظور کرنے اور اظہار افسوس سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ مردان میں مشال خان کے قاتلوں کی حمایت میں چند ہی روز بعد ایک بھرپور جلوس نکال کر ان عناصر نے اپنی قوت کا اظہار کیا تھا جو مذہب کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک میں انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔
اسی طرح اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال میں عالمی رپورٹوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کی نکتہ چینی اور روز مرہ کی بنیاد پر سامنے آنے والے افسوس ناک واقعات کے باوجود تبدیلی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت تو کیا عدالتیں بھی اس حوالے سے لاچار اور مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہیں۔ گزشتہ روز ہی سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج نے ایک سولہ سالہ ہندو لڑکی کو یہ کہتے ہوئے اس کے نام نہاد مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی کہ ’شریعت‘ کے مطابق وہ بلوغت کی عمر میں داخل ہو چکی ہے۔ حالانکہ لڑکی کے ماں باپ نے بیان دیا تھا کہ اسے اس کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا اور اسے ذبردستی مسلمان کرنے کے بعد اب دباؤ میں اس سے بیان دلوایا جا رہا تھا۔ جج صاحب نے والدین کے وکیل کی یہ دلیل بھی قابل اعتنا نہیں سمجھی کہ اس بات کی یقین دہانی کرنے کے لئے کہ لڑکی دباؤ میں بیان نہیں دے رہی ، اسے دارالامان میں بھیجا جائے اور بعد میں اس کا بیان لیا جائے۔ نہ ہی ہائی کورٹ کے جج کے لئے یہ بات اہم تھی کہ ملک کے قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچی کی شادی ممنوع ہے۔ معزز جج اس حقیقت سے بھی آنکھیں ملانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ سندھ میں ہندو کم سن لڑکیوں کو ہی کیوں اسلام کی حقانیت پر یقین ہونے لگتا ہے اور وہ دھڑا دھڑ مسلمان ہو کر ادھیڑ عمر مسلمان مردوں سے شادی کرکے اپنے والدین سے ملنے سے بھی انکار کردیتی ہیں۔ ہر سال ایک ہزار ہندو لڑکیوں کو اس طریقے سے مسلمان کرکے ان کے خاندانوں کو خوفزدہ اور ملک بھر کی اقلیتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔ لیکن ملک کے حکام اور عدالتیں اس کی روک تھام میں ناکام ہیں۔
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں اس مزاج کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ اسی لئے مسلسل فوجی کارروائی اورسینکڑوں لوگوں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے موت کی سزا دینے کے باوجود اس کی روک تھام نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے ہمارے حکمران ان عوامل کا خاتمہ اور ان قوتوں کی سرکوبی کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے جو ملک میں دہشت گردی کے فروغ کاسبب بن رہی ہیں۔
(بشکریہ:کارواان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ