وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے آج پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد کہا ہے کہ ’ مجھ سے دو گھنٹے تک سوال کئے گئے اور میں نے ان کے دوٹوک جواب دیئے ہیں۔ آخر میں میں نے جے آئی ٹی کے ارکان سے پوچھا کہ ہم پر الزام کیا ہے۔ ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا‘۔ آج جو بات مریم نواز نے کہی ہے ، وہی بات گزشتہ ماہ نواز شریف نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد کہی تھی کہ انہیں اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ کیا ان پر سرکاری وسائل میں خرد برد کا الزام ہے یا اس کا کوئی ثبوت ہے۔ اس کے بعد ان کے صاحبزادے حسین نواز نے بھی گزشتہ روز اس الزام کو دہرایا ہے کہ ان کے خاندان پر کوئی الزام نہیں ہے اور جے آئی ٹی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ کس بات کی تحقیقات کررہی ہے۔ شریف خاندان نے سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلہ میں درج آٹھ سوالوں کو پڑھ لیا ہوتا تو انہیں باری باری جے آئی ٹی کے ارکان یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی ان 8 سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہی شریف خاندان اور دیگر متعلقہ لوگوں سے پوچھ گچھ کررہی ہے۔ اگر حسین و حسن نواز ، مریم نواز اور نواز شریف سپریم کورٹ کے سامنے لائے ہوئے ان سوالوں کے جواب فراہم کرچکے ہیں تو انہیں نہ تو جے آئی ٹی کو سازش کہنے کی ضرورت ہے اور نہ وہ اس کارروائی کو کٹھ پتلی تماشہ سمجھتے۔ نہ ہی گھنٹوں سوالوں کا سامنا کرنے کے بعد بھی اس خاندان کے لوگوں کو بار بار کمیٹی میں بلایا جاتا۔ یہ سوال بظاہر بہت سادہ ہیں اور اس میں خاندان کے کسی کاروبار کے بارے میں کوئی سوال اٹھانے کی بجائے پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے حقائق کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس سے قبل چار ماہ تک سپریم کورٹ میں مقدمہ کی کارروائی کے دوران بھی شریف خاندان ان بنیادی سوالوں کے جواب فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ اسی لئے پانچ ججوں پر مشتمل دو سینئر ججوں نے تو وزیر اعظم کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے نااہل کرنے کی سفارش کردی تھی لیکن اکثریتی تین ججوں نے اس معاملہ کی مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے اور ان کا جواب تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شریف خاندان اگر ان سوالوں کا جواب دے سکتا ہے یا دے چکا ہے تو اسے پریشان ہونے یا جے آئی ٹی سے اپنے خلاف الزام کے بارے میں استفسار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے تین ججوں نے 20 اپریل کے فیصلہ میں جو سوال اٹھائے گئے تھے وہ سادہ اور عام فہم ہیں اور ان کا مقصد ان وسائل کے بارے میں جو لندن کے اپارٹمنٹس خریدنے کے لئے استعمال کئے گئے تھے ، یہ یقین کرنا ہے کہ وہ جائز طریقے سے حاصل ہوئے تھے۔ کیوں کہ پاناما پیپرز میں اس بارے میں شبہات کا اظہار سامنے آیا تھا۔ یہ سوال کچھ یوں ہیں:
1) گلف سٹیل مل کیسے قائم ہوئی۔ اس کے قرضوں کا کیا بنا۔ اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والا سرمایہ سعودی عرب، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا
2) کیا حسن اور حسین نواز کے پاس کم سنی کے باوجود 90 کی دہائی کے آغاز میں وسائل موجود تھے کہ وہ لندن میں املاک خرید سکتے
3) حمد بن جاسم الثانی کا اچانک سامنے آنے والا خط افسانہ ہے یا حقیقت
4) کمپنیوں کے حصص املاک میں کیسے تبدیل ہوئے
5) نیلسن انٹر پرائزز اور نسکول نامی کمپنیوں کا اصل مالک کون ہے
6) ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کیسے قائم ہوئی
7) حسن نواز کی قائم کردہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوں کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا
8) ان کمپنیوں کے لئے بنیادی سرمایہ کیسے فراہم ہؤا اور حسین نواز نے اپنے والد نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفہ میں روانہ کئے ، وہ کہاں سے حاصل کئے گئے
عام عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی سوال شریف خاندان کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے نہیں ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ اور اس کے ایما پر جے آئی ٹی یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ اصل سرمایہ کہاں سے فراہم ہؤا۔ اسی حوالے سے حدیبیہ ملز اور میاں شریف کے کاروبار کے بارے میں سوالات بھی پوچھے جارہے ہوں گے۔ اگر بنیادی طور پر گلف اسٹیل ملز کے لئے فراہم کردہ سرمایہ کے بارے میں جواب اور ثبوت سامنے آجاتا تو شاید سپریم کورٹ کو سوال پوچھنے اور جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ ان سوالات کا جواب دینے میں مشکلات کی وجہ سے ہی شریف خاندان اور ان کے حامی اس معاملہ کو قانونی اورمالی سے زیادہ سیاسی بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اصل سوال اس ہنگامے میں گم کئے جا سکیں ۔ ہو سکتا ہے وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہو جائیں لیکن یہ سوال اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک یہ واضح نہیں ہوتا کہ جس سرمایہ کی بنیاد پر نواز شریف کے صاحبزادے امیر کبیر ہوگئے ، وہ کہاں سے فراہم ہؤا تھا۔
البتہ مریم نواز کی یہ بات خوش آئیند ہے کہ وہ بیٹی ہونے کی وجہ سے اپنے والد وزیر اعظم نواز شریف کی کمزوری نہیں بلکہ ان کی طاقت ہیں۔ اللہ انہیں اور ان کے والد کو استقامت بخشے لیکن ان کو یہ جان لینا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کا سامنا کرکے انہوں نے خود اور ان کے بھائیوں اور والد نے یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ پائی پائی کا حساب دینے کے لئے تیار ہیں۔ ایسا ہی وعدہ وزیر اعظم قومی اسمبلی میں قوم سے کرچکے ہیں۔ اس لئے مریم نواز جب یہ کہتی ہیں کہ:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
تو ان سے میر تقی میر کی زبان میں بس یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ :
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
فیس بک کمینٹ