تماشہ لگا ہے۔ تھیٹر سجا ہے۔ آئیے تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ یہ ڈرامہ دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں۔ اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ آپ جانتے ہیں کہ پرانے دلائل اور نئے کرداروں کے ساتھ سجائے گئے اس نئے شو میں آپ کی دلچسپی کا سامان نہیں ہے۔ نہ ہی اس سے اس خواب کی تکمیل ممکن ہے جسے دیکھتے پاکستان کی تیسری چوتھی نسل بوڑھی ہو رہی ہے اور جس خواب کو تماشہ بناتے حکمرانوں کے تہہ در تہہ کئی طبقات اپنی نسلوں کی بہبود کی ضمانت حاصل کر چکے۔ یا تو اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو حکمرانی کیلئے تیار کر چکے یا بیرون ملک املاک حاصل کر چکے یا اپنے اہل خاندان کیلئے محلات اور جاگیریں تعمیر کر چکے یا ملک کے خزانے کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے قومی وسائل کو ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کر چکے۔ بس یہ احتیاط کی گئی کہ یہ سارے کھاتے بیرون ملک ایسے ملکوں کے بینکوں میں ہوں جہاں سے انہیں تلاش کرنا اور واپس ان کے حقداروں تک پہنچانا ممکن نہ ہو۔ یوں بھی جو ہجوم یعنی اس ملک کے 20 کروڑ عوام ان وسائل کا حقدار ہے، ان کی ذہنی تربیت کا یوں اہتمام کر لیا گیا ہے کہ ان میں سے ہر شخص اپنی ایک چھوٹی سی دنیا بنائے اپنے طور پر قومی وسائل میں سے وہ حصہ وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے نظام تو فراہم نہیں کرتا لیکن نظام یعنی قانون ، احکامات ، سرکاری ہدایات اور قواعد کو توڑ کر بخوبی ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس توڑ پھوڑ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ افراد اور خاندان خوشحال ہونے لگتے ہیں، ملک اور قوم کمزور اور لاغر ہو کر محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کون ہے جو اس شبہ میں مبتلا ہو کہ پاکستان محتاجی کی زندگی نہیں گزارتا۔ یہ بے بسی پاکستان میں وزیروں اور امرا کے طویل قافلوں ، کروفر اور شان و شوکت سے تو نہیں ماپی جا سکتی لیکن جب اعلیٰ پوشاک پہنے یہ حکمران یا ان کے نمائندے دنیا کے مختلف دارالحکومتوں یا اداروں کے پاس مزید ’’امداد‘‘ جسے عام آدمی کی تفہیم کیلئے بھیک بھی کہا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ تو وہ اپنی ذاتی نفاست اور نزاکت کے باوجود بھکاریوں ہی کا درجہ پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ خیرات مانگنے والے سارے حکمرانوں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ امداد کے نام پر قرض لینے کا یہ طریقہ کم از کم ان کے شب و روز اور ایام حکمرانی کو تو سہانا بنا کر دکھا سکتا ہے لیکن اس کی ادائیگی کا بوجھ تو ان لوگوں کے کندھوں پر ہی ڈالا جائے گا جو عوام کہلاتے ہیں اور جنہوں نے تمام تر جشن کے باوجود قومی سائل میں سے اپنا ’’حصہ‘‘ بٹورنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اب یہ پیغام عام کر دیا گیا ہے کہ یہ ناکامی کسی حکومت یا مملکتی نظام کی ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ ہر فرد کی ذاتی ناکامی ہے کیونکہ لوٹ کے اس میلہ میں ہر شخص کو اپنی حیثیت اور قوت کے مطابق اپنا دامن ، آنگن یا بینک کا کھاتہ بھرنے کی مکمل چھوٹ دی گئی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس ملک میں عام مزدور کی سرکاری اجرت 12 ہزار مقرر ہو اور جہاں نوجوان 5 ہزار معاوضہ پر 12 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرنے پر مجبور ہو چکے ہوں وہاں تین سے پانچ مرلے کا جھونپڑا نما مکان بنانے کیلئے لاکھوں ہی نہیں کروڑوں میں بات کی جائے۔
کیا ملک کے کسی ماہر معاشیات نے یہ آسان تخمینہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ایک عام مزدور اپنی تجویز کردہ کل سرکاری اجرت پر کام کرتا ہے اور اسے نہ بھوک لگتی ہے، نہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اس کے بچوں کو تعلیم کی حاجت ہے، نہ بیوی یا ماں بیمار ہوتی ہے، نہ اسے گیس، بجلی یا پانی کا بل ادا کرنا ہے اور نہ کام پر آنے جانے کیلئے بس یا ویگن کا کرایہ ادا کرنا ہے اور ہر ماہ اجرت میں ملنے والے 12 ہزار نقد کو جمع کروا دینا ہے تو اسے 50 لاکھ کا مکان خریدنے کیلئے 35 برس، 40 لاکھ مالیت کا زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے 27 برس اور کوئی جھگی نما جگہ کے 30 لاکھ روپے دینے کیلئے 21 برس انتظار کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر کی معیشتوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ رہائشی املاک کی قیمتیں لوگوں کی اوسط سالانہ آمدنی کے حساب سے ان کی دسترس میں ہوں۔ کمرشل یا سرکاری نگرانی میں کام کرنے والے ادارے اس بات کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹا بڑا گھر بنا سکے اور 25 سے 30 برس کے دوران اس کی قیمت مع سود ادا بھی کر سکے۔ لیکن پاک سرزمین میں سود کے خلاف حرام کے نعرے بلند کر کے املاک کا کام کالے دھن کو سمونے اور بٹورنے والوں کے حوالے کر کے ایک ایسی صورت پیدا کر دی گئی ہے کہ مزدور تو مزدور ایک عام دفتری بابو یا سرکاری عہدیدار بھی ساری زندگی کام کر کے اپنا گھر بنانے کی امید قائم نہیں کر سکتا۔ لیکن اس مشکل کو حل کرنے کیلئے اس نام میں ایسے بہت سے سوراخ فراہم کر دیئے گئے ہیں جن سے ہر شخص حسب توفیق استفادہ کر سکتا ہے اور جس کی یہ اوقات نہ ہو اسے ایدھی یا اس قسم کے درجنوں خیراتی اداروں کے دستر خوان پر قطار میں کھڑا ہو کر بھوک مٹانے کی سہولت حاصل ہے۔
جانے کون کب اس سوال کا جواب تلاش کرے گا کہ اس قوم کو خیرات پر لگانے کا مزاج قومی سطح سے انفرادی سطح تک عام کر کے کون سی دینی یا قومی خدمت سرانجام دی گئی ہے۔ اب تو سرکار بھی اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور ہر قومی بجٹ کے موقع پر بتایا جاتا ہے کہ خیراتی منصوبوں میں کتنے ارب روپوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ کالموں اور مذاکروں میں اس پر تو بحث ہوتی ہے کہ حکومت خیر کے کام میں اور غریبوں کی امداد کیلئے مزید وسائل کیوں فراہم نہیں کرتی لیکن یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ حکومت روزگار، تحفظ اور علاج معالجہ کی ذمہ داری لینے کی بجائے خیراتی اداروں کا کردار کیوں ادا کر رہی ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں میں حکومتوں کی مالی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کتنے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ پاکستان کی حکومت یہ بتا کر کامرانی کے جھنڈے گاڑتی ہے کہ اس نے کتنے مزید خاندانوں کو امدادی چیک فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس میں متمول دیندار تاجر باقاعدگی سے زکوۃ ادا کرتے ہیں اور فراخدلی سے صدقات دیتے ہیں۔ عید قربان پر قیمتی سے قیمتی جانور ذبح کر کے اپنی شان میں اضافہ کرتے ہیں لیکن ان سب سیٹھوں میں سے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دہندگان کے طور پر رجسٹر ہیں اور سرکاری خزانے میں آمدنی پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی نہیں جا سکتی تو آسانی سے یاد رکھی جا سکتی ہے اور یہی قوم ہے جو اپنی عدالت عظمیٰ کے ذریعے اپنے وزیراعظم سے یہ حساب مانگنے پر اصرار کر رہی ہے کہ اس نے یہ پوشاک اور یہ محل کیسے حاصل کئے ہیں۔ تضادات سے کھیلتی اس قوم کی عدالتوں میں تماشہ نہیں لگے گا تو کیا ہو گا۔ پھر اسے دیکھنے سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔
ملک کو دہشت گردی سے لڑنا ہے۔ حکومت کو ان مدرسوں کا احتساب کرنا ہے جو انتہا پسندوں کی پناہ گاہیں ہیں لیکن اسے یہ جاننے یا پوچھنے کی اجازت نہیں ہے کہ ملک کے 50 ہزار سے زیادہ مدرسوں کو زکوۃ اور صدقات کی مد میں دی جانے والی رقم کا حجم کیا ہے۔ کیونکہ اس طرح ملک میں کالے دھن کا تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن جب سب کالے دھن کی اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگا رہے ہوں تو اس کا منبع کیسے بند کیا جا سکتا ہے۔ تو کیا مضائقہ ہے کہ مولوی کو مدرسوں کے کنٹرول کی بات میں اسلام خطرے میں دکھائی دیتا ہے اور وہ پکارتا ہے کہ دیکھو ان دینی درسگاہوں میں مفت تعلیم بھی ملتی ہے اور مفت کھانا اور رہائش بھی فراہم ہوتی ہے۔ کہاں ہے وہ حکومت جو یہ انتظام کر سکے۔ تب حکومت کو مولوی کی رکابی میں مرغن غذا اور زیر استعمال قیمتی گاڑی پر انگلی اٹھانے اور یہ بتانے کا یارا نہیں ہوتا کہ آپ کے طالب علم تو پانی نما دال کے ساتھ سوکھی روٹیاں کھانے اور کھردری چارپائیوں پر سوتے ہیں تو آپ کی خواب گاہوں اور عشرت کدوں کے ائر کنڈیشنز کیوں بند نہیں ہوتے۔ ایسے میں حکومت اپنے عیب چھپاتی ہے اور مولوی صدقے زکوۃ کا مال بغیر ڈکار لئے ہضم کرتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے اسلام کی سربلندی کا علم اٹھا لیتا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہو کہ اس ملک کے شہری اس مولوی اور اس کی بیان کی گئی روایت پر اعتبار کریں۔
یہ تماشہ 70 برس سے لگا ہے۔ پاکستان کے ڈی جی ایم او DGMO نے بھارت کو متنبہ کر دیا ہے کہ اب سرحدوں کی خلاف ورزی ہوئی اور پاکستانی فوجیوں کو بلااشتعال نشانہ بنایا گیا تو اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ پاکستان ایسی حرکتوں کا سخت جواب دے گا۔ اور اس سے امن و استحکام کو خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اس تماشہ کا حصہ ہی ہے کہ بھارت کو دندان شکن جواب دینا ہے، کشمیر آزاد کرانا ہے، لال قلعہ پر پاکستان کا پرچم لہرانا ہے۔ لیکن غریب کو پیٹ بھر کھانا، نوجوان کو مناسب کام اور بیمار کو ضروری علاج معالجہ مہیا کرنا اہم نہیں ہے۔ بارود اور توپخانے کی ضرورتیں کم ہوں گی تو عوام کی احتیاج پر نظر ڈالی جائے گی۔ فی الوقت وہ دشمن پر کامیابی کے نعرے لگا کر اور خیرات میں ملنے والی روٹیوں سے پیٹ بھر کر جی کو خوش اور جسم کو اس قابل رکھ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان یا اسلام زندہ باد کے نعرے لگانے کے قابل رہیں۔ ان نعروں کی گونج میں ایک بدعنوان وزیراعظم کا احتساب کرنے کا میلہ لگا ہے۔ دیکھیں کون کون اس میلے کے رونق بڑھانے کو گھروں سے نکلا ہے۔ چوہدری برادران مسلم لیگ کا اتحاد قائم کریں گے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کا وقار بحال کرے گی، تحریک انصاف نیا پاکستان تخلیق کرے گی اور عدالت انصاف کا بول بالا کرے گی۔ یہی بول بالا اب احتساب ڈرامہ کی چوتھی سیریل کے طور پر شروع ہو چکا ہے۔ رپورٹر ، کالم نگار ، اینکر اور مبصر لمحے لمحے کی لائیو کوریج فراہم کر رہے ہیں۔ دیکھیں کوئی محروم نہ وہ جائے۔ یہ تماشہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔
کیا ہوا کہ بھارت اور افغانستان تصادم پر آمادہ ہیں، امریکہ غرا رہا ہے، شہریوں کو روٹی تو کجا صاف پانی بھی نہیں ملتا اور جو ملتا ہے اس کی امید بھی ختم ہونے کو ہے۔ اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے کہ روپے کی قدر گر رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں بحران ہے اور سرمایہ کار ہراساں ہے۔ چین پریشان ہے کہ یہ کس ملک میں وسائل لگانے کا ارادہ باندھ لیا۔ وزیراعظم کٹہرے میں ہے۔ عدالت کے جج شواہد کو قوانین کے مطابق جانچ رہے ہیں۔ اس بات پر سٹہ لگا ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دے گا یا معزول کیا جائے گا۔ کوئی بھی صورت ہو، عہدہ تو خالی ہو گا۔ یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس عہدہ پر کون فائز ہو گا۔ یہ کس کا حق ہے، یہ میرا حق ہے یا تیرا حق ہے۔ یہ اس کا حق ہے جس کے سر پر ہما کا سایہ ہے۔ آؤ اس کمزور محصور وزیراعظم کو چھوڑیں۔ ہما کا سایہ تلاش کریں۔ آخر کو ملک کی وزارت عظمیٰ کو خالی تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ ناروے)