کہنے کو وہ ملک کے سب سے بڑے قانونی و آئینی ماہر تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو آمریت کے لیے استعمال کیا حالانکہ زندگی کے ابتدائی سفر میں ان کا شمار تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں ہوتا تھا۔ اگر وہ چاہتے تو پوری زندگی جمہوریت کی استقامت اور آمریت کے خاتمہ کے لیے وقف کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اس دشت میں کچھ اس انداز سے سیاحی و آوارگی کی کہ جب بھی کسی فوجی آمر کو اپنا اقتدار آئینی بھول بھلیوں میں گم ہوتا دکھائی دیتا تو رات کے اندھیرے میں وہ شریف الدین پیرزادہ کو آواز دیتا۔ جس کے جواب میں وہاس کے لئے روشنی اور صبح کا پیغام لے کر آتے۔ اسی تگ و دو میں ان کا سفر تمام ہوا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ملک کے کالم نگاروں کی فوج ظفر موج نے انہیں یاد تو دور کا معاملہ رہا کسی نے دو سطروں میں بھی ان کا تذکرہ کرنا پسند نہ کیا۔ سیّد شریف الدین پیرزادہ اپنی اُس تصویر کا ہمیشہ تذکرہ کرتے تھے جس میں ایک نوجوان قائداعظم کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس تصویر کے بارے میں ہمیشہ میڈیا میں یہ بات آتی رہی کہ یہ تصویر بھی اصل نہیں ہے۔ ان کی وفات کے بعد جب بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر ان کے متعلق مضمون شامل کیا تو مضمون نگار نے اس تصویر کی صداقت کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا۔
کہنے کو سیّد شریف الدین پیرزادہ ایوب خان کے دور میں وزیرِ خارجہ رہے۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء کے زمانے میں اٹارنی جنرل کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ کہنے والے کہتے ہیں ان کو ”اٹارنی جنرل“ کے عہدے میں ”جنرل“ کے نام میں زیادہ انسیت محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے ہر فوجی حکمران کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے آئینِ پاکستان کا مطالعہ کرتے رہتے کہ آئین کے کون سے صفحہ پر چور دروازے سے آنے والوں کو عزت و احترام کا راستہ مل سکتا ہے۔ سیّد شریف الدین پیرزادہ ویسے تو ہر فوجی حکمران کے ”پسندیدہ“ قانون دان تھے لیکن جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے لیے وہ نعمت سے کم نہ تھے خاص طور پر جنرل ضیاء نے جس انداز سے اپنے اقتدار کو طول دیا اس کے پس منظر میں یہ ”شریف“ بھی شامل تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء نے اسلام، تحریکِ پاکستان اور نظریہ پاکستان جیسے موضوعات کو اپنی حکومت کا منشور بنایا۔ اس کام کے لیے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے لے کر سیّد شریف الدین پیرزادہ جیسے کاریگر ان کے ہمنوا رہے۔ اصل میں تو جنرل ضیاء ہر وقت ایسے ”دانشوروں“ کی تلاش میں رہتا تھا جو اقتدار کے چوکھٹے میں چوکھا رنگ بھریں۔ اس طرح کے مصوروں میں سیّد شریف الدین پیرزادہ بہت معروف تھے جو آمریت کی بدصورت تصویر کو بھی خوبصورت بنا دیا کرتے تھے۔
جنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف کے بھی وہ منظورِ نظر رہے۔ انہوں نے انہیں اپنا خصوصی مشیر بنایا جس کے بعد مشرف کے طورِ حکمرانی ہی بدل گئے۔ سیّد شریف الدین پیرزادہ کے پاس مختلف عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ بھی تھا۔ وہ اٹارنی جنرل کے علاوہ جنرل ضیاء کے دور میں اسلامی ملکوں کی تنظیم او۔آئی۔سی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔
جنرل ضیاء نے اپنے دورِ حکومت کے دوران ایک تقریر میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پیرزادہ انہیں آئینی اور قانونی نکات سے مسلسل آگاہ نہ کرتے رہتے تو میرا اقتدار اتنا طویل نہیں ہو سکتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ آمریت کے ہاتھ مضبوط کرنے میں شریف الدین پیرزادہ ہر وقت کمربستہ رہے۔ ایک سینئر قانون دان ہونے کے ناتے جب وہ عدالتوں میں فوجی آمریت کے کیس میں پیش ہو کر آمریت کے حق میں دلائل دیتے تو انہی کے ہم عصر قانون دان ان کے دلائل پر تنقید کرتے۔ مثال کے طور پر جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنے قبضے کو قانونی بنانے کے لیے سیّد شریف الدین پیرزادہ سے رابطہ کیا۔ جس پر انہوں نے جنرل مشرف کو ایک نیا مشورہ دیا کہ وہ سابق فوجی حکمرانوں کی طرف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کہلانے کی بجائے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ قائم کریں اور خود ہی چیف ایگزیکٹو بن جائیں۔ جیسے ہی جنرل پرویز مشرف نے قوم سے خطاب میں اپنے چیف ایگزیکٹو ہونے کا اعلان کیا تو اس کے بعد کسی صحافی نے ان سے دریافت کیا آئین اور قانون کے مطابق چیف ایگزیکٹو کا کوئی عہدہ نہیں ہے آپ کس طرح چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں؟ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اس عہدے کی توثیق مَیں نے آئین اور قانون کے ماہرین سے لی ہے۔ یہاں پر آئین و قانون کے ماہر کا اشارہ شریف الدین پیرزادہ کی طرف تھا۔
جنرل مشرف اور سید شریف الدین پیرزادہ کا ساتھ اسی دن سے ہی ہو گیا جس پر شریف الدین پیرزادہ ان کو نت نئے راہ دکھاتے رہے۔ انہی راستوں کی روشنی میں وہ اپنا اقتدار طویل سے طویل تر کرتے رہے۔ سید شریف الدین پیرزادہ میں خوبی تھی کہ وہ ہر حکمران کے ساتھ بڑی آسانی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے۔ میرا خیال ہے اگر وہ جنرل ضیاء کے ساتھ مل کر بھٹو کو پھانسی گھاٹ لے جا سکتے تھے تو وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر بھٹو کے قاتلوں کو قبر سے تلاش کرنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔
سید شریف الدین پیرزادہ جیسے لوگ کیا قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں یا نہیں ایک سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے افراد ہر معاشرے میں ”با عزت ‘‘ شہری کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ کہیں وہ تحریکِ پاکستان پر لکھی گئی اپنی کتب کا حوالہ دیتے تو کہیں کسی معزز جج کے سامنے پیش ہوتے تو معلوم ہوتا وہ جج تو ان کا شاگرد رہ چکا ہے یا اس جج کے تقرر کی سفارش بھی پیرزادہ نے کی تھی۔ ایسے میں ہمیشہ فیصلہ ان کی منشا کے مطابق آیا کرتا تھا۔ وہ سراپا انکسار و اقتدار سے محبت کرنے والے آئین پسند شہری تھے جس نے قانون کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالا اور اپنے حساب سے کامیاب و کامران رہے۔ انہوں نے بظاہر دنیاوی و معاشی زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں لیکن سماجی طور پر وہ اتنے طاقتور نہ ہو سکے جس کے وہ حق دار تھے۔ اس عزت کا نہ ملنا ان کا پنا رویہ تھا جو ہر وقت حکمرانوں کو غیر آئینی راستے دکھانے میں صرف کرتے تھے۔ بلاشہ وہ فوجی حکمرانوں کی پسندیدہ شخصیت تھے۔ اگر ان کا انتقال کسی فوجی آمریت میں ہوتا تو اس دن پورے ملک میں چھٹی ہوتی۔ افسوس ان کا انتقال جمہوریت کے زمانے میں ہوا یہی وجہ ہے کہ سوائے عدالتوں کے کسی اور شعبہ نے ان کا جانے کا افسوس نہیں منایا۔ کاش ان کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہوتا آخر وہ تحریکِ پاکستان کے ادنیٰ کارکن بھی تھے۔
فیس بک کمینٹ