سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے احیا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں یہ پرواہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا لیکن یہ اہم ہے کہ ملک میں عوام کے حق حکمرانی کے لئے آواز بلند کی جائے۔ لاہور میں ایوان اقبال میں وکلاء کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے معزول وزیر اعظم نے ملک میں قانون کی بالا دستی کے لئے وکیلوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ 28 جولائی کوسپریم کورٹ نے پاناما کیس میں فیصلہ کرتے ہوئے ایک غیر متعلقہ معاملہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جبکہ پاناما پیپرز کے انکشافات میں نواز شریف اور ان کے خاندان پر لگائے گئے الزامات پر کارروائی کا معاملہ احتساب عدالت کے سپرد کردیا تھا۔ اور حکم دیا تھا کہ سپریم کورٹ کا ایک جج ان مقدمات کی نگرانی کرے گا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے مختلف پہلوؤں پر متعدد قانون دانوں نے تنقید کی ہے۔
ملک کے متعدد سیاسی کارکن، تجزیہ نگار اور جمہوری و انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ایک منتخب وزیر اعظم کو معزول کرنے کے حکم پر سخت تنقید کی ہے۔ اب نواز شریف اور ان کے اہل خاندان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی ہے جبکہ قانون دانوں اور غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا جارہا ہے کہ وہ اس معاملہ پر غور کرنے کے لئے فل کورٹ تشکیل دیں تاکہ اس فیصلہ میں پانچ رکنی بنچ نے جن متنازعہ امور کو چھؤا ہے، ان پر حتمی رائے سامنے آ سکے۔ ان میں کسی منتخب رکن قومی اسمبلی کو آئین کی شق 62 کے تحت یہ کہہ کر کہ وہ امین اور صادق نہیں رہا ، نااہل قرار دینے کا معاملہ سر فہرست ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے دور میں ترمیم کرنے پر تیار نہیں تھی لیکن اب وہ اس شق میں ایسی ترمیم کرنا چاہتی ہے جس سے نااہلی کی مدت کا تعین ہو سکے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس شق کے تحت نااہل قرار دیئے جانے کے بعد نواز شریف تاحیات کسی عوامی عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتے۔ اب پیپلز پارٹی اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرنے لئے تیار نہیں ہے کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے صرف نواز شریف کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نواز شریف نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلہ کے علاوہ عدالت پر بھی تند و تیز حملے کئے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ فیصلہ بعض خفیہ طاقتوں کے اشارے پر پہلے سے کرلیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں لاہور ہائی کورٹ نے کل ایک درخواست پر حکم جاری کیا تھا کہ پیمرا عدلیہ پر ہونے والی تنقید پر مشتمل تقاریر کو نشر نہ ہونے دے۔ ایک طرف نواز شریف یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ اس وقت اپنے اقتدار کی بجائے ملک میں جمہوریت کی جنگ لڑ رہے ہیں کیوں کہ اگر طاقتور گروہوں کے گٹھ جوڑ کو تسلیم کرلیا گیا تو ملک پر ایک بار پھر آمریت نافذ ہو سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ براہ راست فوج کا نام لینے اور اسٹبلشمنٹ سے تصادم سے گریز بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خوہش ہے کہ مرکز اور پنجاب میں ان کی پارٹی کی حکومت بھی برقرار رہے اور کسی طرح انہیں دوبارہ ملک کی سیاست میں کردار ادا کرنے کا موقع بھی مل جائے۔ تاہم ملک کی سیاسی صورت حال میں مختلف سیاسی پارٹیاں جس طرح فوج کے اشارے پر مؤقف اختیار کرنے کے رویہ کا اظہار کررہی ہیں، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ نواز شریف تعاون کرتے ہوئے تصادم کی دھمکیوں کے ذریعے وہ سیاسی مقاصد حاصل نہیں کرسکیں گے جن کا وہ اعلان کرتے ہیں۔
ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام، پارلیمنٹ کو خود مختار بنانے اور فوج یا عدالتوں کے سیاست میں مداخلت کی روک تھام کے لئے یہ بے حد اہم ہے کہ سب سیاسی قوتیں باہمی اختلافات کے باوجود بعض بنیادی نکات پر ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ ہوں۔ یعنی وہ آئین میں ایسی شقات کو نکالنے پرمتفق ہو سکیں جو عدالتوں کے ہاتھوں میں غیر ضروری ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے ذریعے ملک میں کسی بھی جمہوری انتظام کو عدم استحکام کا شکار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی وسیع اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ متعدد سیاسی پارٹیاں وہی مؤقف اختیار کرنا چاہتی ہیں جو فوج کو قبول ہو اور سیاست پر اس کی دسترس کمزور نہ ہوسکے۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) بھی جو آئینی ترامیم لانا چاہتی ہے، ان کے بارے میں اعلان کیا جارہا ہے کہ آئین میں شق 62 اور 63 کے اسلامی پہلوؤں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ یہ حیرت انگیز مؤقف ہے۔ کیوں کہ جن شقات کو اسلامی کہا جاتا ہے وہ سابق فوجی آمر ضیا ء الحق کے دور میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کے نام لیتے ہوئے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ نواز شریف اور ان کے حامی اب بھی اگر ان شقات کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں تو آصف زرداری کی اس بات سے انکار ممکن نہیں ہوگا کہ ترمیم کی موجودہ کوششیں صرف نواز شریف کو فائدہ پہچانے کے لئے ہو رہی ہیں۔
نواز شریف اگر ملک میں جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور انہیں واقعی اقتدار کے حصول یا گرفتار ہونے کی پرواہ نہیں ہے تو وہ ان مشکلات کو سامنے لائیں جو بطور وزیر اعظم فرائض انجام دیتے ہوئے انہیں ملک کی طاقتور فوج کے ہاتھوں درپیش رہی ہیں۔ وہ عوام کو بتائیں کی فوج کن معاملات میں سیاسی حکومت کو زچ کرتی ہے اور ملک کی پالیسی کے کون سے پہلو سیاستدانوں کی خواہش یا پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ فوجی اداروں کی ضد کی وجہ سے انہیں اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ بات اب سرگوشیوں میں کرنے کی بجائے منظر عام پر لائی جائے کہ بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سیاست دان کیا چاہتے ہیں اور فوج ان سے کیا کرواتی رہی ہے۔ یہ بھی طے ہو جائے کہ دوسرے ملکوں سے تعلقات، قومی سلامتی کے امور کی وضاحت اور ملک کی حفاظت کے نام پر پالیسیوں میں کہاں کہاں سیاسی پارٹیاں اقتدار برقرار رکھنے کے لئے فوج کے سامنے گھٹنے ٹیکتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
تاہم اگر نواز شریف سمیت ملک کے دیگر سیاست دان یہ حوصلہ نہیں رکھتے ۔ اور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ملک میں سیاسی عمل جاری رکھنے کے لئے فوج کو خوش رکھنا ضروری ہے تو اسے جمہوری عمل کہنا غلط ہو گا۔ کیوں کہ جو منتخب نمائیندے عوام کی خواہشات اور ضرورتوں کے مطابق فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں ہیں اور عہدوں کے لالچ میں اس بے اختیاری کو قبول کرکے اپنی دانست میں ’قومی فریضہ ‘ سرانجام دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور اسے جمہوریت کی بالادستی قرار دیتے ہیں، وہ اپنے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دیتے۔ نواز شریف کے پاس اس وقت یہ موقع ہے کہ وہ اقتدار کی ہوس سے بالا ہوکر اور قید و بند کی مشکلات سے لاپرواہ ہو کر اصل صورت حال عوام کے سامنے رکھیں۔ اس کے لئے ان کی پارٹی کو اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑے گا اور توڑ پھوڑ کا سامنا بھی ہوگا۔ لیکن ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے یہ واحد راستہ ہے۔ یہ بے حد مشکل راستہ ہے جس کی جد و جہد طویل ہوگی اور اس میں بے شمار قربانیاں دینا پڑیں گی۔ اگر نواز شریف اس عظیم مقصد کے لئے خود کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ان کا مطمح نظر محض اپنی بحالی ، خاندان کو نیب مقدمات سے بچانا یا 2018 کے انتخات جیتنا ہی ہے تو اسے جمہوریت کی جد و جہد کی بجائے ہوس اقتدار کی کوشش ہی کہا جائے گا۔
امریکہ کی طرف سے سخت گیر رویہ سامنے آنے کے بعد فوج اس وقت سخت دباؤ میں ہے۔ امریکہ پاکستان کی جن پالیسیوں کی وجہ سے نالاں ہے ، وہ فوج کا ہی ٹریڈ مارک ہیں۔ ان حالات میں فوج کے لئے براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تاہم ملک کی سیاست کے حوالے سے اس کی گرفت صرف اسی صورت میں کمزور ہو سکے گی اگر سیاست دان آگے بڑھ کر اس موقع سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے اکٹھے ہو سکیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد سیاست دان فوجی بیانیہ کی حمایت میں کورس کے انداز میں راگ الاپ رہے ہیں۔ اور ہر سیاست دان کی خواہش ہے کہ وہ دوسرے سے بڑھ کر فوجی اسٹبلشمنٹ کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکے۔ ایسے معاشرے میں عوامی حکمرانی کی باتیں ایک بھونڈے مذاق کے سوا کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
(بشکریہ : کاروا ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ