اگست کا مہینہ ہمارے لیے بہت طرح کے دکھ لے آتا ہے. اس مہینے نے ہم سب سے بہت کچھ چھینا ہے، بہت سے پیاروں سے ہم اسی مہینے جدا ہو گئے تھے جس میں 8 اگست شامل ہے اور آخر میں جاتے جاتے بھی یہ مہینہ ہمیں رلا کر ہی جاتا ہے کیونکہ اسی مہینے کی 26 تاریخ سن 2006 میں ہم سے ایک بہت عظیم شخصیت بچھڑ گئی تھی. وہ شخص جس کے نام سے بھی لوگ کانپ اٹھتے تھے، وہ رعب دار شخصیت جِن کی صرف ایک جھلک دیکھنے کو بھی لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے. جس نے آمریت کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا اور آخری دم تک وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے.اس عظیم شخصیت کو لوگ نواب اکبر خان بگٹی کے نام سے جانتے ہیں.شہید نواب اکبر بگٹی 12 جولائی انیس سو ستائیس بروز منگل بارکھان حاجی کوٹ میں نواب محراب خان کے گھر پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم ڈیرہ بگٹی سے ہی حاصل کی. پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے ایچی سن کالج کا رخ کیا. طالب علمی کے دور میں ہی ان کے والد نواب محراب خان انتقال کر گئے اور نواب صاحب نے اپنے قبیلے کی نوابی کی ذمہ داری قبول کرلی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1944 کو باقاعدہ سردار کی حیثیت سے فعال ہوئے۔28 نومبر 1946 کو مری بگٹی قبیلے کے دو سردار دودا خان مری اور نواب صاحب نے ایک درخواست کے ذریعے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے قبائلی علاقے بھی قلات فیڈریشن میں شامل ہونے چاہییں. اس وقت بلوچستان کے دو حصے تھے۔ قلات اور برٹش بلوچستان. نواب صاحب ایک سردار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی اور عمدہ سیاسی گنوں کے مالک بھی تھے۔انھوں نے بلوچستان میں آزادی کے بعد 1950 میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کے کونسل رکن بننے کے دوران مشیر بنے۔ ملک فیروز خان مسلم لیگ (ن) کی کابینہ میں بحیثیت نائب وزیر دفاع شامل رہے۔نواب اکبرخان بگٹی نے ایوبی دور میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا۔ جب 1955 میں پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں یکجا کردیا گیا۔ انہی جبر و تشدد کی وجہ سے 1956 میں بلوچستان کے تین نامور سرداروں نے قائم شدہ (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دور کا ایک مشہور نعرہ ہوا کرتا تھا۔
"اتحاد کا ایک نشان ( عطااللہ، خیر بخش، اکبر خان) ”
اسی دوران 1962 میں ایوب خان ملک میر خان کے ساتھ کوئٹہ آئے اور مسلح افواج کی حفاظت میں نہایت اشتعال انگیز تقریر کی. اگلے روز بلوچستانیوں نے جوابی جلسہ کیا جس میں سندھ کے سیاسی رہنما میر رسول بخش تالپور بھی شامل تھے، انہوں نے جلسہ میں ایوب خان کی آمریت کو للکارا جس کی وجہ سے بلوچستان کے ہر علاقے سے گرفتاریاں ہوئیں اور ان پر بغاوت اور قتل کے الزام لگائیں گئے۔ جن میں نواب صاحب بھی شامل تھے۔مارشل لا کے بعد نواب اکبر بگٹی ایک قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور چودہ سال قید کی سزا دی گئی۔ لیکن جولائی 1961 میں رہا ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ ایوبی دور نے ان پر ایبڈو کا قانون لگا دیا جس کی وجہ سے دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکے۔دسمبر 1973 میں بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے جو صرف دس ماہ تک تھی اور پھر کچھ اختلافات کی وجہ سے استعفیٰ دے کر گھر جا کے بیٹھ گئے۔1980 میں نواب صاحب نے ایک انوکھا اور منفرد سیاسی طریقہ اختیار کیا اور ضیا کے دور میں اردو بولنے اور لکھنے سے انکار کردیا. انھوں نے ہر جگہ اپنی مادری زبان میں ہی تقاریر کیں۔پھر 1988 کے انتخابات میں اردو بولنا شروع کی۔ 1988 کے انتخابات میں نواب صاحب نے آزادانہ طور پر حصہ لیا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے اور پھر 1990 میں کوئٹہ میں اپنی الگ پارٹی "جموری وطن پارٹی” کی تشکیل کی۔1990 اور 1993 کے انتخابات کے بعد دونوں بار نواب صاحب کی پارٹی حزب اختلاف میں رہی۔ 2005 میں ڈاکٹر شازیہ کیس نے پورے بلوچستان میں آگ لگا دی۔ اس واقعہ کے بعد ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہوگئے اور نواب صاحب نے اس کیس پر ڈٹ کر آمریت کا مقابلہ کیا اور جنگ لڑنے کا ارادہ کرلیا اور بلوچستان میں آہستہ آہستہ بگٹی قبیلہ مختلف طرح سے حملے کرتا رہا اور حکومت پاکستان کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ڈاکٹر شازیہ کیس سے نواب صاحب نے بلوچ روایات کو نئی زندگی دی۔اسی سال مارچ کے مہینے میں جب نواب صاحب ایک بی بی سی رپورٹر کو انٹرویو دے رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ ہوا جس میں 17 گھروں پر بمباری کی گئی۔ جس میں 70 سے زاہد افراد شہید ہوئے، گولے ڈیرہ بگٹی کی آبادی اور نواب صاحب کے قلعے میں گرے۔اس کے بعد نواب صاحب نے 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کیا اور بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور آخری دم تک ہار نہ مانی۔ نواب صاحب بلوچستان کے پہاڑوں سے بہت محبّت کرتے تھے اور قدرت کا کھیل دیکھے ان کو شہادت بھی اپنے محبوب کی آغوش میں ہی ملی۔26 اگست 2006 کو تراتانی کوہ سلیمان میں ان پر شدید حملہ کرنے کے ساتھ کلسٹر بموں سے حملہ کیا گیا اس طرح انھوں نے اپنے کئی ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔نواب صاحب جاتے جاتے ایک نظریہ اپنی آنے والی نسل کے لیے چھوڑ گئے کہ جو بھی ہو کبھی حق بات پر چپ مت بیھٹنا اور کبھی کسی ظالم کے سامنے جھکنا مت۔
ہم آپ کی شخصیت اور بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں۔
(بشکریہ:حال حوال ۔۔کوئٹہ)