سابق وزیر اعظم نواز شریف تمام افوہوں اور قیاس آرائیوں کے باوجودآج پاکستان واپس آرہے ہیں۔ سینیٹر مشاہداللہ نے اس کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ نیب کے مقدمات نواز شریف کے سیاسی فیصلہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تاہم انہوں نے یہ بتانے سے معذوری ظاہر کی ہے کہ کیا نواز شریف احتساب عدالت کے سامنے پیش ہوں گے۔ اب تک شریف خاندان نے نیب کی کارروائی میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہؤا تھا۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے حال ہی میں ایک ٹویٹ پیغام میں کہا تھا کہ ’ یہ انتقامی کارروائی ہے اور ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے‘۔ تاہم بی بی سی اردو سروس نے آج لندن سے حسین نواز کے حوالے سے خبر دی تھی کہ نواز شریف پاکستان جا کر احتساب عدالت میں بھی پیش ہوں گے۔ عدالت نے انہیں منگل 26 ستمبر کو طلب کیا ہؤا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی نواز شریف کے ساتھ ہی واپس آرہے ہیں اور ان کے ترجمان کے مطابق وہ سوموار کو احتساب عدالت میں پیش ہو ں گے۔
نواز شریف پر بد عنوانی کے الزامات ہیں۔ انہیں 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے یہ کہتے ہوئے نااہل قرار دیا تھا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے اس لئے وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے یا قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں ترجیحی بنیادوں پر مقدمات قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے چھ ماہ کے اندر ان مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس کے ساتھ عدالت کے حکم پر ہی حدیبیہ ملز کا پرانا مقدمہ بھی کھولا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں بھی مسترد کردی تھیں لیکن ابھی تک اس بارے میں تفصیلی حکم سامنے نہیں آیا ہے۔ اس طرح نواز شریف کے پاس گوشہ نشینی اختیار کرنے یا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ اب نواز شریف نے سیاسی مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ جرات مندانہ اور درست ہے۔ پاناما کیس اور اس کے تناظر میں نواز شریف کے خلاف عدالتی کارروائی پر نواز شریف کے علاوہ دیگر حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی کی گئی ہے۔ ایک جمہوری نظام میں منتخب وزیر اعظم کے خلاف یک طرفہ عدالتی کارروائی بہت سے حلقوں کے لئے تشویش اور پریشانی کا سبب ہے اور اسے جمہوریت کے لئے اندیشہ بھی سمجھا جارہا ہے۔
نواز شریف اپنی علیل اہلیہ کی عیادت کے لئے گزشتہ ماہ لندن چلے گئے تھے۔ گزشتہ اتوار کو لاہور کے ضمنی انتخاب کے بعد مریم نواز بھی لندن روانہ ہو گئی تھیں۔ اگرچہ لاہور کے حلقہ 120 سے کلثوم نواز کی فتح سے نواز شریف کو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری جد و جہد میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن ان سمیت سارے خاندان کے لندن روانہ ہوجانے کی وجہ سے یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ اب نواز شریف پاکستان واپس آکر نیب کے مقدمات کا سامنا نہیں کریں گے ۔ اس حوالے سے فوج کے ساتھ خفیہ مفاہمت کی باتیں بھی کی جارہی تھیں جس کے مطابق نواز شریف واپس نہیں آئیں گے اور فوج ان کے خلاف مقدمات کے بارے میں زیادہ سخت مؤقف اختیار نہیں کرے گی۔ اس دوران شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا رویہ اور بیانات سے بھی یہ تاثر دیا گیا تھا کہ نواز شریف کو پارٹی کے وسیع تر مفاد میں فوج سے مفاہمت کرلینی چاہئے اور عملی سیاست سے دست بردار ہو جانا چاہئے۔ اس کے برعکس نواز شریف اور ان کے بعض ساتھی ڈٹ جانے اور عوامی قوت سے جمہوری اختیار پر عدالتی اور اسٹیبلشمنٹ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرتے رہے تھے۔ اگرچہ نواز شریف کینسر کے مرض میں مبتلا اپنی اہلیہ سے ملنے لندن گئے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد مسلسل یہ خبریں سامنے لائی جارہی تھیں کہ وہ ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ کل پاکستان واپس پہنچ کر وہ ان افواہوں کا خاتمہ کردیں گے۔
نواز شریف کو اس سیاسی جد و جہد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے خلاف سنگین الزامات ہیں اور سپریم کورٹ ان معاملات کو انجام تک پہنچانے کے لئے شدت پسندانہ رویہ ظاہر کرچکی ہے۔ فوج کے ساتھ بوجوہ نواز شریف کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ فوج کو نواز شریف کی کئی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ ان حالات میں پاکستان آکر سیاسی طور سے سرگرم ہونے کی صورت میں انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ اور نیب کی کارروائی اگرچہ بعض سنگین الزامات کی بنیاد پر استوار ہے لیکن ابھی تک نواز شریف اور ان کے خاندان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہؤا ہے ۔ اس شبہ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں قانونی طور سے اپنا دفاع کرنے کا حق نہیں دیا جارہا۔ لیکن نیب کی کارروائی کا حصہ نہ بننا ایک سیاسی فیصلہ ہو گا۔ نواز شریف کو اس کے قانونی نتائج کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ لیکن یہ سارا معاملہ اب صرف کرپشن اور قانون کے سامنے جوبدہی سے زیادہ اس اصول پر استوار ہو چکا ہے کہ ملک میں فیصلوں کا اختیار منتخب عوامی نمائیندوں کو ہو گا یا چند بااختیار ادارے اپنے فیصلے مسلط کرتے رہیں گے۔
نواز شریف کی وطن واپسی یہ اعلان ہو گا کہ وہ عوامی حکمرانی کے اصول کے لئے لڑنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ