عمران خان نے سیاسی اقتدار کی جد و جہد کو ذاتی لڑائی میں تبدیل کیا تھا ۔ اب وہ بنفس نفیس براہ راست بدعنوانی، دشمن ملکوں سے فنڈز وصول کرنے اور جھوٹ بولنے جیسے الزامات کی زد میں ہیں۔ اس ہنگامے میں فریقین پورے زور سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں لیکن اپنے الزامات کا ثبوت مناسب فورمز میں پیش کرنے پرتیار نہیں ہیں۔
اپوزیشن تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کو عمران خان پر کیچڑ اچھالنے کے لئے استعمال کررہی ہے جبکہ حکومت پاناما پیپرز کے بعد اب براڈ شیٹ نامی کمپنی کو اپنے کرپشن بیانیہ کی دلیل کے طور پر سامنے لائی ہے۔ اس معاملہ میں شدید ہزیمت اٹھانے اور کسی برطانوی عدالت کے حکم پر جبراً پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے رقم وصول کرنے کے اسکینڈل کے بعد بھی حکومت اس کمپنی کو قابل اعتبار قرار دیتے ہوئے کسی بھی طرح یہ ثابت کرنے کا جتن کررہی ہے کہ دراصل نواز شریف کئی دہائیوں سے قوم اور عدالتوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے ایک ٹوئٹ پیغام میں نواز شریف پر عوام اور پارلیمنٹ سے جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔ یہی الزام اپوزیشن لیڈروں نے آج الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے عمران خان پر عائد کیا ہے اور دعویٰ کیا کہ عمران خان کو پارٹی کی فارن فنڈنگ میں گھپلوں کا اچھی طرح علم تھا کیوں کہ وہ خود اس کا حصہ تھے۔ ان وسائل کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ جب اس بارے میں سوال سامنے آئے تو سات برس سے خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
اپوزیشن اتحاد پاکستان جمہوی تحریک نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر یہ مطالبہ کرنے کے لئے ریلی منعقد کی کہ کمیشن اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری پورا کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس میں فیصلہ سامنے لائے۔ یہ معاملہ گزشتہ 7 برس سے زیر غور ہے لیکن اس پر فیصلہ ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ یہ معاملہ تحریک انصاف کے ایک بانی رکن اکبر ایس احمد الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی لیڈر شپ پارٹی فنڈز میں بدعنوانیوں کا نوٹس لینے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں متعدد سماعتیں کرنے کے باوجود کوئی فیصلہ صادر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب یہ معاملہ ایک اسکروٹنی کمیٹی کے حوالے کیا گیا ہے جو سارے شواہد کا جائزہ لے رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس معاملہ پر غور کے دوران الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے علاوہ سماعت مؤخر کروانے کی متعد د درخواستیں بھی دے چکی ہے۔ حال ہی میں تحریک انصاف کی طرف سے فارن فنڈنگ میں غلطیوں کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا گیا تھا کہ اگر ایسی کوئی بے قاعدگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری پارٹی چئیرمین عمران خان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ وہ ایجنٹ اس کے ذمہ دار ہوں گے جنہیں فنڈز اکٹھا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
پی ڈی ایم کے احتجاج کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا کہ ’کمیشن اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور انہیں کسی دباؤ کے بغیر پورا کرنے میں پرعزم ہے‘۔ یہ وضاحت کرنے کے بعد کمیشن نے یہ جتانا ضروری سمجھا ہے کہ ’کمیشن ملک میں آزادانہ انتخابات کروانے کے لئے تیار رہتا ہے خواہ یہ عام انتخابات ہوں، سینیٹ کے انتخاب ہوں یا ضمنی انتخابات‘۔ پریس ریلیز کے مطابق ’جہاں تک فارن فنڈنگ کیس کا تعلق ہے تو کورونا وبا، وکیلوں کی مصروفیات اور اسکروٹنی کمیٹی کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ جیسی رکاوٹوں کے باوجود موجودہ کمیشن نے قابل ذکر پیش رفت کی ہے ۔ اسکروٹنی کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ہفتے میں کم از کم تین اجلاس منعقد کرے۔ تاکہ اس معاملہ کو حتمی انجام تک پہنچایا جاسکے‘۔
کیا یہ وضاحت پی ڈی ایم کی قیادت کو مطمئن کرسکے گی جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آج احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ادارہ غیر جانبدرانہ اور منصفانہ انتخابات کروانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض اداروں نے الیکشن کمیشن کو ہائی جیک کیا اور پھر اپنی مرضی کا ایک نااہل شخص ملک پر مسلط کردیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس میں حقیقی ذمہ داروں کا تعین نہ کیا تو اس ادارے پر اپوزیشن کا اعتماد مکمل طور سے ختم ہوجائے گا اور اس کے تحت کسی انتخاب کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے پی ڈی ایم کے احتجاج کے بعد وضاحتی پریس ریلیز اور اپنی غیر جانبداری واضح کرنے کی کوشش سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کے دباؤ کو محسوس کرتا ہے ۔ اسی لئے اپنے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے نیک نیتی کا اعلان کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ لیکن اپوزیشن ایک خاص معاملہ کو فوکس کرکے الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کررہی ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس ہے۔ ہوسکتا ہے اس معاملہ میں کوئی زیادہ سنگین بے قاعدگی نہ ہوئی ہو لیکن گزشتہ چند برس کے دوران تحریک انصاف نے اس معاملہ پر دفاعی پوزیشن اختیار کرکے اپنا مقدمہ خراب کیا ہے۔ پہلے اعلیٰ عدالتوں میں کارروائی رکوانے اور الیکشن کمیشن کے علاوہ اسکروٹنی کمیٹی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب اس طرح تحریک انصاف کا مقصد پورا نہیں ہوسکا تو معاملہ کی تحقیق کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے صلاحیتیں صرف کی گئیں۔ اس معاملہ میں خود پر دباؤ کم کروانے کے لئے تحریک انصاف 2017 میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے پارٹی فنڈز کا معاملہ بھی اسکروٹنی کمیٹی میں لے جاچکی ہے۔ اس طریقہ سے تو یہی لگتا ہے کہ تحریک انصاف الزامات کا جواب دینے سے عاری ہے لیکن اب دوسری پارٹیوں پر الزام لگا کر اس معاملہ کو لٹکانا چاہتی ہے۔
یہ حقیقت بھی تحریک انصاف کے مقدمہ کو کمزور کرتی ہے کہ یہ معاملہ پارٹی کے ایک بانی رکن ہی الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تھے۔ اکبر ایس احمد کا کہنا تھا کہ پارٹی نے بیرونی ممالک میں غیر قانونی طریقے سے فنڈز اکٹھے کئے اور انہیں ہنڈی کے ذریعے ملک میں لایا گیا۔ اس طریقہ سے ملکی سلامتی و مفادات کو اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے۔ وہ جب یہ معاملہ پارٹی چئیرمین کے نوٹس میں لائے تو اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ الیکشن کمیشن میں درخواست کے حوالے سے اکبر ایس احمد نے یہ الزام بھی لگایا تھا پارٹی فنڈ میں عطیہ دینے والے غیر ملکیوں میں بھارت اور اسرائیل کے شہری بھی تھے۔ مریم نواز نے دراصل اسی الزام کو دہراتے ہوئے آج اسلام آباد میں عمران خان پر انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور ایک اسرائیلی شہری سے چندہ لینے اور اسے ملکی مفاد کے خلاف استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔
ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا بھی دراصل اس سیاسی کلچر کا اہم جزو بن چکا ہے جو اس وقت ملک میں عام ہے۔ نواز شریف اور پی ڈی ایم کی قیادت نے جب فوجی اداروں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات عائد کئے تو حکومتی نمائیندوں نے بے دریغ انہیں بھارتی ایجنڈا قرار دیا۔ اب مریم نواز اسی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کیا ان ہتھکنڈوں سے ملکی سیاسی ماحول میں کسی بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ قومی سطح پر ملک کے لئے کام کرنے والے لیڈروں کو ایک دوسرے کی دیانت اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے کی بجائے ، احترام اوراعتماد کا رشتہ استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تاہم یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب فرد اور سیاست کو علیحدہ کرکے اصولوں کی بنیاد پر بحث کو آگے بڑھایا جائے گا۔ حکومت کسی حد تک اس پوزیشن میں ہوتی ہے کہ وہ الزام لگانے کی بجائے، اپنے عمل سے عوام کو مطمئن کرے۔ اور اگر مخالف سیاسی لیڈر کسی غیر قانونی طریقہ میں ملوث رہے ہیں تو وہ خود فریق نہ بنے بلکہ متعلقہ اداروں کو خود مختاری سے کام کرنے کا موقع دے۔
پاکستان میں وزیر اعظم اور ان کے نمائیندے مخالف سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی کے متعلق اپنے مؤقف میں کسی لچک کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ نیب جیسے قانونی طور سے غیر جانبدار ادارے کے علاوہ غیر ملکی عدالتوں میں ہونے والے غیر متعلقہ فیصلوں کو کسی بھی طرح سیاسی مقصد سے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے میں اپوزیشن بھی وہی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے جوابی وار کرنے کو جائز طریقہ سمجھتی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن فوری طور سے کوئی فیصلہ دینے سے گریز کرے گا لیکن اس معاملہ میں اب اتنی زیادہ سیاست شامل کردی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن یا کسی بھی عدالتی فورم سے اس حوالے سے آنے والا کوئی بھی فیصلہ دوسرے فریق کو قبول نہیں ہوگا۔
یہ طرز عمل ایک ایسے سیاسی تصادم کا راستہ ہموار کررہا ہے جس میں عوام سیاست دانوں اور جمہوری طریقہ کے بارے میں شبہات کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اس تباہ کن صورت حال سے بچنا ہر سیاسی جماعت کی ترجیح ہونی چاہئے۔
ٌ(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ