فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے ایک ٹویٹ پیغام نے ملک میں نیا سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے۔ یہ ٹویٹ مختصر لیکن حاکمانہ اور درشت لہجے میں لکھا گیا ہے۔ اس میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کو مسترد کیا گیا ہے۔ اس اعلامیہ میں وزیراعظم نے ڈان لیکس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ نوٹیفکیشن کے دیگر نکات میں وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین علی کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کے علاوہ ملک میں اخبارات کے مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس اور صحافی سیرل المیڈا کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ اس اعلامیہ میں اے پی این ایس سے قومی سلامتی کے امور پر رپورٹنگ کےلئے ضابطہ اخلاق بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ اس حوالے سے اخبارات رپورٹنگ کرتے ہوئے اعلیٰ صحافتی اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔ گزشتہ برس 6 اکتوبر کو ڈان نے سیرل المیڈا کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ سول حکومت کے نمائندوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملک میں انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے بارے میں اختلاف کرتے ہوئے سخت موقف ختیار کیا تھا۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد فوج نے نہ صرف اسے من گھڑت قرار دے کر مسترد کیا بلکہ اس بات پر اصرار کیا تھا کہ یہ خبر شائع کروانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے اس حوالے سے سخت موقف اختیار کیا اور یہ واضح کیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں سکیورٹی کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک اجلاس کی خبر کی اشاعت سے ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے اس لئے اس معاملہ میں ملوث تمام افراد کو سزا ملنی چاہئے۔ فوج کے ردعمل کے بعد حکومت نے بھی اس کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اس خبر کو من گھڑت اور جعلی قرار دیا تھا۔ تاہم اس مذمت اور تردید سے بھی فوج کی ناراضی ختم نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں وزیر اطلاعات پرویز رشید کو خبر کی اشاعت رکوانے میں ناکامی پر عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ ساری صورتحال مضحکہ خیز شکل اختیار کر چکی تھی۔ کیونکہ ایک طرف خبر کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا جا رہا تھا تو دوسری طرف فوج حکومت پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اپنے معاونین اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے۔ فوج نے سیرل المیڈا یا ڈان کے بارے میں کوئی بات نہیں کی البتہ وزیراعظم ہاؤس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ اسی دباؤ کے نتیجے میں اس معاملہ کی تحقیقات کےلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی قیادت ایک سابق جج نے کی اور اس میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی شامل تھے۔ اس دوران ڈان نے خبر واپس لینے یا اس کی صداقت پر حرف زنی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایڈیٹر ظفر عباس نے خبر کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک ادارتی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’’اس خبر کی تصدیق کی گئی، اسے مختلف ذرائع سے چیک کیا گیا اور اس میں بیان کئے گئے حقائق کی پڑتال کر لی گئی تھی‘‘۔
گزشتہ ہفتے کے دوران تحقیقاتی کمیٹی نے ڈان لیکس کے حوالے سے اپنی رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دی تھی۔ حکومت نے حسب دستور اس رپورٹ کو شائع کرنے سے گریز کیا۔ اس دوران یہ چہ میگوئیاں ہوتی رہی تھیں کہ رپورٹ میں کن لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہوگا۔ ان میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کا نام بھی سامنے آیا تھا تاہم انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ انہیں وزارت خارجہ سے ہٹا کر کوئی دوسرا عہدہ دے دیا جائے گا۔ اس طرح حکومت کے خیال میں سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔ آج وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیہ نے ان اندازوں اور قیاس آرائیوں کی تصدیق کر دی۔ وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کے خلاف کارروائی کا حکم دینے کے علاوہ طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس بارے میں سرکاری اعلان بعد میں جاری کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس سے ڈان کے مدیر اور رپورٹر کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے بھی کہا گیا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اعلامیہ کے مطابق یہ اقدامات تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے پیرا 18 کے تحت کئے گئے ہیں۔ چونکہ رپورٹ سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی اس لئے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس پیرا میں کی جانے والی سفارشات کا پس منظر کیا ہے اور رپورٹ میں ڈان کی خبر کی اشاعت کے اسکینڈل کی مزید کیا تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں۔ تاہم وزیراعظم ہاؤس کے اعلان کے تھوڑی دیر بعد ہی میجر جنرل آصف غفور کے ایک ٹویٹ نے ملک بھر میں ہلچل مچا دی ہے۔ صبح 11 بج کر 52 منٹ پر جاری ہونے والے اس ٹویٹ کا متن کچھ یوں ہے: ’’ڈان لیکس پر جاری ہونے والا نوٹیفکیشن نامکمل ہے۔ اور یہ تحقیقاتی بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے‘‘۔
فوج کے اس کرخت اور حاکمانہ پیغام کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر سائے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ ڈان میں خبر کی اشاعت سے لے کر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے تک حکومت اور اس کے اہلکاروں اور معاونین کی طرف سے ضرور کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن آج وزیراعظم کے حکم پر فوج کے میجر جنرل کے رینک کے افسر کا تبصرہ ناموزوں اور سیاسی معاملات میں فوج کو حاصل غیر ضروری اور غیر آئینی اثر و رسوخ کا نمائندہ ہے۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہوگا کہ ملک کے آئینی وزیراعظم اور پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی پارٹی کے سربراہ اور پارلیمانی لیڈر کے حکم کو فوج یا اس کا نمائندہ کس حیثیت اور اختیار سے مسترد کر سکتا ہے۔ اصولی طور پر ملک کے بااختیار اور آئینی وزیراعظم کے خلاف ایسا ٹویٹ پیغام جاری کرنے پر متعلقہ افسر سے باز پرس ہونی چاہئے اور انہیں اس عہدہ سے ہٹایا جانا چاہئے۔ لیکن پاکستان میں سیاست ، جمہوری روایات اور پارلیمانی اختیار کے بارے میں فوج کے طرز عمل اور اسے قبول کرنے کے سیاسی اور عوامی مزاج کے پیش نظر یہ سوچنا بھی محال ہے کہ فوج کی طرف سے اس بے قاعدگی پر کسی طرف سےکسی تشویش کا اظہار کیا جائے گا۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اس کا خیر مقدم کریں گی اور اسے وزیراعظم کے استعفیٰ کےلئے اپنی مہم میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گی۔ اگرچہ سول معاملات میں فوج کی مداخلت اور زور زبردستی کوئی نئی خبر نہیں ہے لیکن اس کا اظہار بالواسطہ کیا جاتا رہا ہے۔ یا حکومتی نمائندوں سے ملاقات کے دوران اپنی رائے منوانے کےلئے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ ڈان لیکس کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی فوج براہ راست وزیراعظم سے رابطہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کر سکتی تھی۔ اسی طرح حکومت کو جب فوج کی خود سری اور قوت کا اندازہ ہے تو اسے رپورٹ کے مندرجات پر عملدرآمد کےلئے حکم جاری کرنے سے پہلے فوج کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ لیکن آج سامنے آنی والی صورتحال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ فوج اب سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت سے گریز کرے گی۔ اس لئے حکومت کے حلقے اور اس کے حامی یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ڈان لیکس کی رپورٹ آنے کے بعد بعض لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے سے فوج مطمئن ہو جائے گی کیونکہ اب وہ اس معاملہ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ لیکن یہ اندازہ کرنے والے بھول رہے تھے کہ فوج بطور ادارہ کام کرتی ہے اور اس کا سربراہ بدلنے سے اس ادارے کی سوچ اور طریقہ کار میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے جاری ہونے والا بیان نہ صرف فوج کے سیاسی عزائم کا پیش خیمہ ہے بلکہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ فوج مشکلات میں گھرے نواز شریف کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ 20 اپریل کو پاناما کیس کے فیصلہ میں سپریم کورٹ وزیراعظم کو کٹہرے میں کھڑا کرچکی ہے۔ اب ایک جے آئی ٹی بنائی جا رہی ہے جو 60 دن کے اندر سپریم کورٹ کی نگرانی میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کے مالی معاملات کے بارے میں حقائق سامنے لانے کی کوشش کرے گی۔ حیرت انگیز طور پر فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ فوج اس جے آئی ٹی میں سپریم کورٹ کی توقعات کے مطابق شفاف کردار ادا کرے گی۔ اسی طرح فیصلہ سامنے آنے سے پہلے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا کہ فوج پاناما کیس میں سپریم کورٹ کو جو بھی فیصلہ ہو اسے قبول کرلے گی۔ اس کی بجائے ایک ٹویٹ پیغام میں یہ بتایا گیا تھا کہ فوج ’’انصاف اور میرٹ‘‘ پر مبنی فیصلہ قبول کرے گی۔ جے آئی ٹی کے حوالے سے کور کمانڈرز کا بیان اور آج ڈان لیکس پر وزیراعظم کے فیصلہ کو مسترد کرنے کا حکم نامہ کیا یہ ظاہر کرتا ہے کہ فوج سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ’’انصاف اور میرٹ‘‘ کے مطابق سمجھتی ہے۔ اور درحقیقت وہ بھی اپوزیشن پارٹیوں کے اس مطالبہ کی حمایت کرتی ہے کہ نواز شریف کو مالی بے قاعدگیوں اور انتظامی غلط کاریوں کی وجہ سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔
فوج کی طرف سے خواہ اس حوالے سے کوئی وضاحت نہ بھی کی جائے لیکن ملک کی سیاسی پارٹیاں آج کے مختصر ٹویٹ کو اپنے لئے وزیراعظم پر شدت سے حملہ آور ہونے کا اشارہ سمجھ کر نواز شریف کے خلاف مہم کو تیز کریں گی۔ ان حالات میں وزیراعظم کے آپشنز میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ آج فوج کی طرف سے سامنے آنے والا ردعمل بدھ کو بھارتی صنعتکار سجن جندال کی وزیراعظم سے اچانک اور خفیہ ملاقات پر ناراضی کا اظہار ہو۔ اس طرح نواز شریف کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہو کہ اگر بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے فوج کے موقف سے سرمو انحراف کرنے کی کوشش کی تو انہیں گھر جانے کی تیاری کر لینی چاہئے۔
تاہم اس کی وجہ کوئی بھی ہو پاکستان کے عوام کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ اس ملک کے اصل حکمران کون ہیں۔
فیس بک کمینٹ