گھر کے لان میں ایک چارپائی بچھی تھی اور چارپائی پر وہ لیٹے گنگنا رہے تھے۔ دُور جلنے والی ٹیوب لائٹ کی روشنی تاریکی کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔ہمیں دیکھ کر وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے ۔مصافحہ کیا اور خالی خالی نظروں سے ہماری جانب دیکھنے لگے ۔
”ابا جی شاکر تے رضی آئے نے“ (ابا جی رضی اور شاکر آئے ہیں) ان کے بیٹے نے تعارف کرایا ۔”ہاں ہاں میں پچھان لیا اے“(ہاں ہاں میں نے پہچان لیا ہے) آنکھوں سے اجنبیت ختم ہوگئی ۔جیسے اُنہیں کچھ یاد آ گیا ہو۔ اب انہوں نے گرمجوشی کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملایا اور ہمارا حال پوچھا۔ اُن کے بیٹے نے بتایا تھا کہ وہ اب لوگوں کو نہیں پہچانتے۔ مگر ولی محمد واجد نے ہمیں پہچان لیا تھا۔ وہ مجھ سے پریس کلب کا احوال معلوم کرنے لگے۔ شاکر سے نئی کتابوں کے بارے میں دریافت کیا ۔
”مسیح اﷲ جام پوری کیسا ہے؟ اس کا خیال رکھا کرو۔بیٹے کی موت کے بعد وہ تنہا ہوگیا ہے، اُسے ملتے رہا کرو“
یہ گفتگو کوئی پانچ سات منٹ جاری رہی ہوگی پھر ان کی آنکھوں میں اجنبیت لوٹ آئی ۔
”آجکل کس تھانے میں ہیں آپ؟“
میں اس سوال پر چونک گیا ۔میرے جواب دینے سے پہلے ہی انہوں نے مزید گفتگو شروع کردی۔
”جب تک آپ اصل لوگوں کو نہیں پکڑیں گے معاملے کا سراغ نہیں ملے گا۔ ان کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں ۔وہ آسانی سے آپ کے قابو میں نہیں آئیں گے۔“
ولی محمد واجد مسلسل بولے چلے جارہے تھے ۔میں اور شاکر سر جھکائے خاموشی کے ساتھ ان کی گفتگو سنتے رہے۔ دوچار منٹ اسی قسم کی گفتگو جاری رہی ۔ پھر ان کی آنکھوں میں شناسائی واپس آ گئی ۔شعر و ادب اور صحافت کی گفتگو پھر شروع ہوئی اور اسی گفتگو کے دوران وہ ایک بار پھر کسی اور جہان میں چلے گئے ۔
”کیہہ جاناں میں کون او بلھیا۔کیہہ جاناں میں کون؟“
ایک سوز میں ڈوبی آواز نیم تاریک فضا کو چیرتی تھی اور گھر کے لان سے ہوتی ہوئی سڑک کی دوسری جانب موجود شاہ رکنِ عالم کالونی کے قبرستان تک جاتی تھی۔
”کیہہ جاناں میں کون او بلھیا۔ کیہہ جاناں میں کون؟“
ولی محمد واجد والہانہ انداز میں گا رہے تھے ۔بالکل اسی طرح جیسے وہ مشاعروں میں ترنم کے ساتھ اپنی شاعری سنایا کرتے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ شاید ہماری یہ ان کے ساتھ آخری ملاقات ہے ۔ہماری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آنسو کیوں نہ چھلکتے وہ آواز جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے مشاعروں اور نعتیہ محافل میں سنتے چلے آرہے تھے ہمیں گمان تھا کہ شاید یہ آواز آج ہم آخری بار سُن رہے ہیں ۔بہت اذیت ناک لمحات تھے ۔ہمیں اس روز معلوم ہوا کہ آخری ملاقات کتنی درد ناک ہوتی ہے ،خاص طور پر اس وقت جب آپ کو یہ معلوم بھی ہو کہ یہ آخری ملاقات ہے ۔
ولی محمد واجد کے ساتھ پہلی ملاقات 1982-83ء میں ”امروز“ کے دفتر میں ہوئی تھی۔ہم کالج میں پڑھتے تھے اور واجد صاحب امروز میں سٹاف رپورٹر تھے۔ ہم انہیں کبھی کبھار کوئی خبر دینے جاتے تھے۔ اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ شاعر بھی ہیں۔ ہم انہیں صرف صحافی کے طور پر جانتے تھے ۔پھر ملاقاتیں بڑھیں تو معلوم ہوا کہ ولی محمد واجد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ صحافی تھے، ٹریڈیونین رہنما تھے، سیاسی کارکن تھے، شاعر تھے، ترقی پسند اور عاشق رسول تھے۔ ٹریڈیونین سرگرمیوں اور آزادیء صحافت کی تحریک کے حوالے سے انہوں نے کئی بار جیل کی یاترا کی ۔1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں انتظامیہ کے ایماء پر فائرنگ ہوئی۔ کئی مزدور مارے گئے ۔ضیاءالحق کا مارشل لاء تھا۔ جنرل اعجاز عظیم ملتان کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا۔ صحافت اپنے بد ترین دور سے گزر رہی تھی۔ اخبارات پر سنسر تھا، صحافیوں کو سرعام کوڑے مارے جاتے تھے۔ امروز ٹرسٹ کا اخبار تھا ۔ حکومت فائرنگ میں مزدوروں کی ہلاکت کو چھپانا چاہتی تھی۔ ولی محمد واجد نے تمام تر دباؤ کے باوجود رپورٹنگ کی، اصل حقائق سامنے لائے اور حکومتی عتاب کا شکار ہوگئے۔ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ عرصے بعد رہائی ملی اور پھر سزا کے طور پراُن کا سکھر تبادلہ کر دیا گیا۔ مگر ولی محمد واجد کےلئے یہ سزائیں بھلا کیا معنی رکھتی تھیں۔ جب تک صحافت سے وابستہ رہے مزدوروں ،کسانوں اور خود صحافیوں کے حقوق کے لئے سرگرم عمل رہے۔وہ بیک وقت ترقی پسند بھی تھے اور مولوی بھی ۔مولوی تو ان کے نام کاحصہ بن چکا تھا ۔ وہ صحافتی حلقو ں میں مولوی واجد کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ پنجابی غزل کے بھی بہت عمدہ شاعر تھے مگر ان کی اصل پہچان نعت تھی۔ ہم کسی محفل میں جاتے، لوگ ایک پر سوز آواز پرسر دھن رہے ہوتے اور ان میں سے بعض کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے تو ہم سمجھ جاتے کہ محفل پر یہ وجد آفریں کیفیت ولی محمد واجد ہی نے طاری کر رکھی ہے۔ غزل میں اُن کے ہاں ایسا مزاحمتی رنگ تھا جو کسی اور کے ہاں کم ہی دِکھائی دیتا ہے۔
کالے پھنئیر وانگوں شُوکے اَت ہنیری رات
چانن لبھن والیو لوکو لُہو دی دیو زکات
ہر پاسے اک ہُو دا عالم کوئی نہیں باہُو
جیہڑی چپ دے جندرے توڑے کون کرے اوہ بات
معاف کریں میں دل دیاں گلاں خط وچ لکھ نئیں سکیا
تیرے میرے ویریاں کھوہ لَئے میتھوں قلم دوات
ولی محمد واجد اپنی یہ غزل ضیاءالحق کے 11 سالہ دور ِ آمریت میں مسلسل پڑھتے رہے۔ ہر مرتبہ یہ غزل نئے معنی دیتی اور سننے والوں کو آمریت سے مقابلے کا نیا حوصلہ دیتی۔ ملتان میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لئے انہوں نے پنجابی اکادمی قائم کی ۔اس اکادمی کے اجلاس ایک طویل عرصہ تک گھنٹہ گھر کے قریب ایک چوبارے میں ہوتے رہے۔ نورزمان ناوک ،عزیز سندھو،حسین سحر ،اقبال ارشد، طفیل ابنِ گل، اختر شمار، اطہر ناسک، شفیق آصف اور بہت سارے دیگر نئے اور پرانے لکھنے والے ان اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ ولی محمد واجد اس تنظیم کے روحِ رواں تھے۔ انتہائی متحرک تمام شاعروں اور ادیبوں سے خود رابطہ رکھتے ۔یہ اجلاس طویل عرصہ تک باقاعدگی کے ساتھ جاری رہے اور پھر تعطل کا شکار ہوگئے۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں پریس ٹرسٹ کے دیگر اخبارات کی طرح امروز بھی بند کردیا گیا ۔اخبار سے منسلک صحافی بے روزگار ہو گئے۔ ولی محمد واجد کو اب معاشی مسائل نے آن گھیرا۔یہاں ترقی پسندی کی بجائے ان کا مولوی ہونا کام آیا۔وہ جماعت ِاہلسنت کے رسالے”السعید“ کے ساتھ منسلک ہوگئے۔زندگی کے آخری چند ماہ کے سواانہوں نے ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزاری ۔مشاعروں اور دیگر تقریبات میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے ۔شہر کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ٹریڈیونین سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرتے تھے اور پھر ان کی علالت کی خبریں آنے لگیں۔30 اپریل 2003ء کو وہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ان کا جنازہ یکم مئی کو ادا کیا گیا۔ عمر بھر صحافیوں، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے اور یوم مئی کے جلسوں اور جلوسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے والے ولی محمد واجد کے جنازے کا جلوس بھی یوم مئی کو روانہ ہوا۔خلقت تھی کہ ہرجانب سے اُمڈی چلی آرہی تھی۔ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں میں سے ہم نے کسی کا اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا۔ہر طبقہء فکر کے لوگ اس میں شریک تھے ہرآنکھ اشکبار تھی ۔ہر چہرہ اُداس تھا ۔ انہیں ان کے گھر کے سامنے والے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔گھر اور قبرستان کے درمیان بس ایک سڑک کا ہی تو فاصلہ تھا ۔
”کیہہ جاناں میں کون او بلھیا۔ کیہہ جاناں میں کون؟“
ایک ہفتہ قبل ان کی یہ پر سوز آواز ان کے گھر سے اس قبرستان تک پہنچی تھی ۔آج واجد صاحب خود بھی یہاں آگئے
فیس بک کمینٹ