آج بہت عرصہ بعد لکھنے بیٹھی اور سوچتی رہی کہ کیا لکھوں ؟ اردگرد نظردوڑائی کچھ اچھا موضوع سخن تلاش کرتی رہی لیکن میرے دیس میں ہر سو آسیب کاسایہ ملا۔
صرف آج کے دن کی ہی داستاں لکھوں تو عجب منظر سامنے آتا ہے ،سیٹ پرپہنچی تو پہلے مریکاسانحہ موضوع گفتگو بنا ایک صاحب کا خیال تھا کہ مری میں حکومتی وارننگ کے باوجود لوگ کیوں گئے ؟ میں سوچتی رہی کہ آج ہی ملتان کی ایک سڑک بیریئر لگا کر بند کردی گئی شاید مرمت کی وجہ سے۔ کسی شہری نے بیریئر توڑ کر جانے کی کوشش نہیں کی مجھ سمیت تمام لوگوں نے گاڑیاں واپس موڑ لیں ۔مری میں چیک پوسٹ سے ہی لوگوں کوگزرنے کیوں دیاگیا۔ اگر مری میں پچاس ہزارگاڑیوں کی گنجائش تھی تو ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں اسی چیک پوسٹ سے ہوکرہی گزری ہوں گی ۔
میری نظرسے ایک بزرگ سیاستدان کی وڈیو گزری بلاشبہ وہ اس عمر میں غلط بیانی نہیں کررہے کہ 80 فیصد ہوٹلز ہمارے ریٹائرڈفوجی بھائیوں کے ہیں ۔تقریباً تیس کے لگ بھگ آرمی ریسٹ ہاﺅسز ہیں ،چیف منسٹر ہاﺅس ہے، گورنرہاﺅس ہے پھرلوگ اس علاقے میں کیوں ٹھٹھرتے رہے۔؟ خبرنہیں ہم بے حسی کے کس اوج کمال کوپہنچ چکے ہیں ۔اتفاق سے ایک استاد محرم بھی محفل میں تشریف فرما تھے۔ وہ حسب حال آن لائن تعلیمی سرگرمیوں کا رونا لے بیٹھے کہ آن لائن کلاسز نے طلباءکوکتابوں سے دور کردیا۔آن لائن امتحانات کو طلباءقدرت کابہت بڑا انعام گردانتے ہیں کہ کوئی چیک نہیں لیکن کیا مضحکہ خیزبات ہے کہ رزلٹ آئے تو گیارہ سو میں سے ہرسٹوڈنٹ گیارہ سو نمبر لے کر ہی پاس ہوا۔ ان استاد محترم کویہ بھی صدمہ تھاکہ آنے والے وقت میں ہمارے بچوں کے استاد یہی طلباءہوں گے۔ ایک اور موضوع جوان گزشتہ موضوعات سے زیادہ مضحکہ خیز تھا یہ ہے کہ بقول ایک ڈاکٹر صاحب صحت کارڈ جاری ہورہے ہیں۔ دس لاکھ فی شہری کے علاج کےلئے ہسپتالوں کوعنایت کیے جائیں گے۔ مگراس صحت کارڈ کی وساطت سے علاج کی فہرست میں اوپی ڈی سہولت نہیں ہوگی۔ نظر یا سماعت کا علاج نہیں ہوگا۔ ایٹمی تنصیبات یا اسلحے سے متاثرہ کوعلاج کی سہولت نہیں ہوگی۔ اقدام خودکشی ،نفسیاتی، اعصابی امراض،بانجھ پن کے علاج سے بھی حکومت انکاری ہے۔ایڈز ٹیسٹ،کاسمیٹک سرجری،دانتوں کا علاج بھی ہیلتھ کارڈ کاحصہ نہیں۔ جنگ کے زخمی بھی علاج کے زمرے میں نہیں آئیں گے ۔کھیل کے میدان کےزخمی شخص بھی ہیلتھ کارڈ کی سہولت سے محروم رہے گا۔ یہ گفتگو سوائے مجھے حیرت زدہ کرنے کے کوئی نتیجہ نہ نکال سکی۔ اور میں سوچتی رہی کہ اگریہ سچ ہے تو اس کارڈ کے ذریعے علاج کس بلاکا کیا جائے گا۔
یہ گفتگوجاری تھی کہ ایک وکیل صاحب تشریف لے آئے جوچھوٹا موٹا زمیندارہ بھی کرتے ہیں ۔ان کاسنایا ہوا قصہ دلخراشی میں تمام لوگوں کی رام کہانیوں کا سرتاج نکلاوہ سناتے رہے اور ہم بھیگی آنکھوں سے ہمہ تن گوش زبان گنگ لیے انہیں تکتے رہے ۔وہ بتارہے تھے کہ کھاد کی دکان پر بیٹھے تھے کہ سائیکل پر ایک بوڑھا دہقان آیااور ایک بو ری کھاد کے لیے منتیں کرنے لگا کہ میری روٹی کا ذریعہ صرف دوایکڑ زمین ہے اورکہیں کھاد دستیاب نہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی سروکار نہیں کہ تم پرستان میں رہو تمہاری اولادیں محل سرا میں پلیں بڑھیں ان کے لیے بھوک کی آگ امتحان بنادی گئی میں سوچتی رہی اور قصور تلاش کرتی رہی کہ ہم غلطی کہاں کرگئے اس قدرمصیبت سے دوچار تو ان ملکوں کی اقلیت نہیں ہے جنہیں مشرک اور پتا نہیں کیا کچھ کہتے ہیں کیوں دائرہ حیات تنگ کیاجارہاہے ۔آئی سی یو میں بستر کم ہیں ۔ایک بیڈ پہ دومریض بھی رکھے جاتے ہیں ۔
ایک روح فرسا بات یہ بھی سنی کہ ڈاکٹر سلیکٹ کرتے ہیں کہ یہ مریض مرنے کے قریب ہے لہذا ایک دوسرے کے چانس زیادہ ہیں تو اس کو آئی سی بیڈ دے دیا جائے ،چلیں ہیلتھ یونٹ چلتے ہیں چار ادویات ہیں جوہر مریض کی پڑیا میں ڈال دی جاتی ہے گویا اس وقت پاکستان کے وہ حالات ہیں کہ کسی پینٹنگ کی مانند ساکت کھڑا ہے کہ منظر دکھائی تو دے رہا ہے مگر ایک بھی پتہ جنبش کی طاقت نہیں رکھتا۔ہاں نیب کی آنکھ مچولی کا کھیل دلچسپ انداز میں کسی اولمپک کی گیم کی طرح جاری وساری ہے جس کا ہرمیچ ہارجیت کے بغیر اختتام پذیر ہورہاہے۔کاش اے کاش ہم بے بس عوام بھی 80ڈگری کے زاویئے سے یوٹرن لے سکیں کہ حالات بدل جائیں۔