جب بھی کبھی پیپلز پارٹی کی بات کرو تو اکثر اپنے ارد گرد سے سنتے ہیں کہ
"یہ وہ والی پیپلز پارٹی نہیں ہے”
گو کہ بھائیوں کی اکثریت یہ نہیں بتا پاتی کہ "وہ والی پیپلز پارٹی” کیا تھی؟؟ فرق پوچھو تو کہتے ہیں کہ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے ایماندار اور کہاں زرداری اور فرزندِ زرداری، اگر بھائیوں کو یہ بتاؤ کہ بھٹو پر اس زمانے میں لادین، غدار اور پاکستان کو توڑنے کے الزامات ایسے مشہور تھے جیسے آج زرداری کی کرپشن تو انکی حیرت دیدنی ہوتی ہے، انہی بھائیوں کے بزرگوں کے بقول بھٹو ایک رقاصہ خورشید بیگم کی اولاد تھا کہ جس سے شاہنواز بھٹو سے نکاح تک نہیں کیا تھا ایک بزرگ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ بھٹو کی ماں موتی لال کے پاس ہوتی تھی، ایک بار سر شاہنواز بھٹو موتی لال کے مہمان ہوئے تو انکی نظر خورشید بیگم پر پڑی اور وہ انکو بھا گئیں وارفتگی بڑھی تو موتی لال نے خورشید بیگم شاہنواز بھٹو کو تحفے میں دے دی، جب وہ شاہنواز بھٹو کے گھر پہنچیں تو ذوالفقار علی ان کی کٌوکھ میں تھا یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل موتی لال کے حقیقی بیٹے جواہر لال نہرو سے ملتی ہے، بھٹو اپنے زمانے میں ایک غدار تھا کیونکہ اس نے "ادِھر ہم اور ادٌھر تم” کا نعرہ لگایا تھا، وہ شرابی تھا (حالانکہ پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروحت پر بھٹو ہی نے پابندی لگائی تھی) اس کی ایرانی بیوی بھی اس کی ایک خامی ہی گنی جاتی تھی، اس کی بیٹی ایک شوقین مزاج لڑکی تھی کہ جو لندن میں تقریباً ننگی گھوما کرتی تھی، اس کو پنکی اس کی شوخ طبیعیت کی وجہ سے کہا جاتا تھا، جب تک وہ اقتدار میں نہیں آئی تھی وہ صرف بدکردار تھی جب وزیراعظم بنی تو سیکورٹی تھریٹ بھی بن گئی، اس نے انڈیا کی مدد پاکستانی فوج کے خلاف جا کر کی تھی، وہ اپنے بھائی کے قتل میں کچھ نہ بھی ہو تو اس حد تک ملوث ضرور تھی کہ وہ اپنے شوہر کے جرم پر خاموش رہی کیونکہ وہ خود مرتضیٰ بھٹو سے جان چھڑانا چاہتی تھی یہ اور بھی بہت کچھ اس وقت بینظیر بھٹو کے متعلق اخبارات میں چھپا کرتا تھا، وہ بزرگ کہ جن کی اولادوں کا آج عمران خان دے جلسے اچ” نچنے نوں جی کردا اے” ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو کرپٹ ہی مانتے تھے کیونکہ اس وقت انکے فیورٹ اسلام کے سچے فرزند امیر المومنین حضرتِ ضیاء الحق تھے جو مردِ مومن اور جہاد کے ضامن تھے ….
مندرجہ بالا سطور کا مقصد یہ نہیں کہ الزامات تازہ کیے جائیں ان کا مقصد صرف آج کے نوجوان کو یہ بتانا ہے کہ جب تک بھٹو اور بینظیر زندہ تھے وہ بھی اتنے ہی کرپٹ اور ناقابلِ برداشت تھے جتنا آج آصف زرداری اور بلاول بھٹو ہے، پیپلز پارٹی کا المیہ یہ رہا ہے کہ جو بھی موجودہ قیادت ہوتی ہے وہ نا قابلِ قبول ہی ہوتی ہے، جب تک بھٹو زندہ تھے تو لوگ کہا کرتے تھے کہ مائینس بھٹو پیپلز پارٹی قابلِ قبول ہے لیکن بھٹو کے ساتھ نہیں، جب بینظیر بھٹو نے پارٹی کی کمان سنبھالی تو یہ کہا جانے لگا کہ اول تو اسلام میں عورت حکمران نہیں ہوسکتی اور یہ عورت تو با لکل بھی نہیں، کوئی کہتا تھا کہ
"نہ جانے کہاں سے آ گئی ہے یہ عورت اس نے آپ سے آ پ کی پیلی ٹیکسی چھین لی ہے اور یہ آپ کا چولہا بھی نہیں جلنے دے گی یہ انگریزوں کے کتے نہلانے والے لوگ ہیں انگریزوں کے کتے”
جب آصف زرداری شریک چیئرمین بنے تو کہا گیا سبحان اللہ، کسی نے پیپلز پارٹی کی فاتحہ پڑھی، تو کسی چمپو چماٹ عسکری فیز 111 کے دانشور، مایوسی کے محمود بوٹی نے جنگ اخبار میں ایک کالم باعنوان
"پیپلز پارٹی مرحومہ و مغفورہ”
لکھا اور جیو ٹی وی کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں اسی دانشور کا ایک چمپو چماٹ ہر روز وہی کالم پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور تحریکِ انصاف کے کارکن ان بھٹی میں ڈالے جانے لائق ارشادات کو ہی واحد سچ مانتے ہیں کہ یہ
"وہ والی پیپلز پارٹی نہیں ہے”
اگر پیپلز پارٹی کے دوست مجھے میری جسارت پر معاف کریں تو میں یہ کہنے جرات کر رہا ہوں کہ آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے بہتر پیپلز پارٹی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بھٹو اور بینظیر دونوں متحرک سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں نے سیاست دنیا کے بہترین اداروں سے ایک مضمون کے طور پر پوری سنجیدگی کے ساتھ پڑھی تھی جبکہ ہم نہیں جانتے کہ آصف کی فارمل ایجوکیشن کیا ہے، لیکن جس طرح سے اس نے انتقامی کارروائیوں کا سیاسی مقابلہ کیا اس کی نظیر خود بھٹوز کے یہاں نہیں ملتی، گیارہ سال کی قید جس میں تین سال بد ترین دشمن نواز شریف کے اور آٹھ سال پرویز مشرف کے، شکنجوں سے لے کر زبان کٹنے تک کوئی حربہ اس کو بینظیر ، پیپلز پارٹی اور جمہوریت سے دستبردار نہیں کرا سکا، مسٹر ٹین پرسنٹ پر ایک پرسنٹ کی کرپشن ثابت کرنے کے لیے ریاست کو گیارہ سال اور تین سو بارہ ایف آئی آرز بھی کم لگیں تب ہی بینظیر بھٹو کے قتل کا کھُرا بھی انہوں نے زرداری ہاؤس سے نکالنے کی کوششیں آج تک ترک نہیں کیں ۔
بھٹو یا بینظیر پر ایسے سنگین نوعیت کے الزامات نہیں لگے تھے، میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ ایک ایسی پارٹی کہ جس کی حکومت دو بار صدر کی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے گرائی ہو، اور ایک بار صدر بھی وہ کہ جو آپکی ہی پارٹی کا رکن تھا، وہ پارٹی کہ جس کی لیڈر سڑک پر مار دی گئی ہو اس شکستہ حال پارٹی کا شریک چئیرمن ایک فوجی آمر کو ایوانِ صدر سے بھگا کر صدر بنا ہو اور وہ صدر بنتے ساتھ اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دے دے…. جو دو دو صوبوں میں سیاسی مخالفین کی حکومتوں کے ہوتے ہوئے جبکہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہو اور ایسے وہ صوبے خود مختار کر دے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کس سطح کی جمہوریت پر یقین رکھتا ہو گا…. یہ وہ کام ہے جس کی نظیر ہمیں پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی، پیپلز پارٹی اس بات کے لیے پہلے دن سے مشہور تھی کہ وہ انتقام نہیں لیتے اس روایت کو آصف زرداری نے پہلے سے کہیں زیادہ بلند کیا، پیپلز پارٹی مشہور تھی کہ وہ کسانوں اور تنخواہ دار طبقے کی درد مند تھی، آصف زرداری نے سو فیصد تنخواہیں بڑھائیں یہاں تک کہ کووڈ کے دنوں میں جب پورے ملک اور وفاقی حکومت نے لوگوں کی اجرتوں میں تخفیف کر رہی تھی تو واحد سندھ حکومت تھی کہ جس نے تنخواہوں میں اضافہ کیا، پیپلز پارٹی کی پہچان یہ رہی ہے کہ وہ مذہب کارڈ استعمال نہیں کرتی ہم نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھ میں تو تسبیح دیکھی لیکن کیا کسی نے کبھی آصف زرداری سے کوئی مذہبی بیانیہ سنا کسی نے بلاول کی کسی تقریر سے کوئی مذہبی بیانیہ اخذ کیا ہو تو بتائے۔۔ بلاول نے اپنے سیاسی مخالفین پر کفر اور قادیانیت کے فتوے اس سے کہیں زیادہ شدت سے رد کیے جس شدت سے بینظیر بھٹو کرتیں تھیں…. پاکستان فوج کے پیپلز پارٹی سے تعلقات ہمیشہ بہت نازک اور اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن عالمی سطح پر جب کبھی فوج سے متعلق کوئی معاملہ درپیش رہا تو پیپلز پارٹی نے وہ رویہ اپنایا جس کی نظیر نہیں ملتی بھٹو ترانوے ہزار فوجی ہندوستان کے قید سے صرف ایک چائے کی پیالی کے دوران کی گئی گفتگو سے چھڑا کر لائے تھے، بینظیر بھٹو نے پاکستان فوج کے لیے میزائل ٹیکنالوجی کا وہ سنگِ میل عبور کیا کہ جو ایٹمی دھماکوں کا پیش خیمہ بنا، اسی روایت کو بلند کرتے ہوئے جب کاکول اکیڈمی کی پشت سے اسامہ بن لادن کی برآمدگی ہوئی تو دنیا نے ہماری افواج کو ایک بار پھر دہشتگردی کی سربراہی سے نوازنے کی کوشش کی جس کو آصف زرداری نے جنرل پاشا اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی گئی وضاحت سے ملیا میٹ کر دیا….
سیاسی میدان کی حالیہ کامیابی تو اتنی بڑی ہے کہ جس کے کیا ہی کہنے کاش کہ لوگ سیاست میں مفاہمت کے معنیٰ سمجھ پاتے کاش یہ نفرت کا بیانیہ جو دفن ہو رہا تھا کہ جس میں پارٹیاں ایک دوسرے پر تنقید تو کرتیں تھیں لیکن تہذیب کی جھلک واضح طور پر نظر آنے لگی تھی، جب پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرنے والے نظریں جھکا کر ملنا شروع ہو رہے تھے جب گالیاں کھانے والا کھانے کھانے اور کھلانے پر آمادہ ہو رہا تھا تو کچھ قوتوں کو یہ سب راس نہیں آیا اور عمران خان کی صورت میں پھر ہم نوے سے پہلے کی سیاست کے ایوانوں میں نہ جانے کب پہنچے ہمیں دھرنے میں ناچتے ہوئے یہ احساس ہی نہیں ہوا، ہمارے سامنے بجلی کے بل جلے ہم یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ نواز شریف اور واپڈہ دو الگ چیزیں ہیں، سولہ سولہ سال کے بچے آئی اے رحمن اور حسین نقی جیسوں کو گالیاں دیتے رہے، ہم انکو ٹائیگر بلاتے رہے، سڑکوں پر پھرتا آوارہ ہجوم جو کل تک سیاسی مخالفین کو گالیاں نکال رہا تھا نہ جانے کب اس نے پارلیمان، پاکستانی عدالتوں اور فوج کو گالیاں دینا شروع کر دیں ہم فرق بھی نہ کر سکے ، ایک آدمی کہ جس کی بیوی سڑک پر مار دی گئی اس نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اپنے کارکنان کو یہ بتایا کہ پاکستان نہ کھپے کا نعرہ سب سے بڑا جرم ہے جبکہ آج ایک نرگسیت کے مارے کی صرف حکومت گری تو کارکنان نے پاکستان کے پاسپورٹ جلا دیئے، فوج اور عدلیہ کو بکاؤ اور امریکی ایجنٹ کہا، لیکن لیڈر بنی گالہ کہ پہاڑی پر بیٹھا گال سہلاتا رہا کہ جو شاید انٌ چپیڑوں سے سوج گیا تھا جو حسن نثار اور ارشاد بھٹی ہر روز جمہوریت کے منہ پر مارتے ہیں، اگر انٌ چپیڑوں پر کسی نے بات کرنا ناگوار سمجھا تو وہ بلاول بھٹو زرداری تھا….
اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ واقعی "وہ والی پیپلز پارٹی نہیں ہے” یہ اسٌ سے بہتر پیپلز پارٹی ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ یہی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سب سے بڑی خواہش ہے ۔۔
فیس بک کمینٹ