اقوام متحدہ: سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں اپنے ملک سے متعلق بات کرنے یا اس کی نمائندگی کرنے کا امکان نہیں ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابقہ افغان حکومت کے نمائندے اقوام متحدہ میں اب بھی افغان مشن پر موجود ہیں۔منگل کو انہوں نے اس سیشن میں شرکت کی جس سے امریکی صدر جو بائیڈن نے خطاب کیا تھا۔
ایک سفارتی ذریعے نے بتایا کہ وہ اس مشن پر اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے جب تک کہ کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں لیتی۔15 ستمبر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو افغان سفیرغلام اسحاق زئی کی جانب سے ایک مراسلہ وصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم کے دیگر اراکین اقوام متحدہ کے اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے۔20 ستمبر کو طالبان کے زیر کنٹرول افغان وزارت خارجہ نے انتونیو گوتریس کو ایک پیغام ارسال کیا جس میں موجودہ یو این جی اے میں شرکت کی درخواست کی گئی۔
ایک طالبان رہنما امیر خان متقی نے نئے افغان وزیر خارجہ کے طور پر اس مراسلے پر دستخط کیے۔اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں مراسلوں موصول ہونے کی تصدیق کی۔
امیر خان متقی نے مراسلے میں کہا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کو 15 اگست کو ’بے دخل‘ کیا گیا اور اس وجہ سے ان کے ایلچی اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کریں گے۔تاہم 27 ستمبر تک طالبان کو جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے جگہ ملنے کا امکان نہیں ہے۔
ڈان سے بات کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ اس طرح کے فیصلے کرنی والی جنرل اسمبلی کی 9 رکنی کمیٹی کا 27 ستمبر سے پہلے ملنے کا امکان نہیں ہے۔
تاہم ذرائع نے تصدیق کی کہ سیکریٹری جنرل کے دفتر نے مالدیپ کے جنرل اسمبلی کے صدرعبداللہ شاہد سے مشاورت کے بعد دونوں مراسلے کمیٹی کو ارسال کردیے ہیں۔کمیٹی کے موجودہ اراکین میں امریکا، روس، چین، بہاماس، بھوٹان، چلی، نمیبیا، سیرالیون اور سویڈن شامل ہیں۔
واشنگٹن میں سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ امریکا طالبان کی اقوام متحدہ میں جائز افغان حکومت کے طور پر شمولیت کی درخواست کی توثیق کرنے میں جلدی بازی کا مظاہر نہیں کررہا۔مختلف امریکی ذرائع ابلاغ کے ذرائع سے بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ وہ طالبان کی درخواست سے متعلق باخبر ہیں لیکن مشاورت کے عمل میں کچھ وقت درکار ہے۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کا نمائندہ 27 ستمبر کو یو این جی اے سے خطاب نہیں کرے گا۔تاہم ایک امکان یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ سفیر کو سیشن سے خطاب کرنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ وہ سابقہ حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں اور اس کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔لیکن سابق افغان حکومت کو اقوام متحدہ میں اب بھی حمایت حاصل ہے اور بظاہر بھارت اس مہم کی قیادت کر رہا ہے۔
کسی طالبان رہنما کو جنرل اسمبلی سے خطاب کی اجازت دینا اقوام متحدہ کی جانب سے کابل میں نئے انتظام کو تسلیم کرنے سے تعبیر کیا جائے گا اور اقوام متحدہ ابھی تک ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ڈان )