قصباتی تعلیم تھی۔ انگریزی کا ایک پہاڑ تھا۔ زندگی میں ڈبل روٹی کھا کر پھول جانے کے لئے یہ پہاڑ سر کرنا ضروری تھا۔ جس خوش نصیب کو انگریزی کا مشفق استاد میسر آ جاتا، وہ اسم اعظم کا کلید بردار ٹھہرتا۔ مقابلے کے امتحان میں بیٹھتا، گھوڑے پر سواری سیکھتا اور پھر عمر بھر ہم افتادگان خاک پر سواری کرتا۔ درویش پر قسمت مہربان تھی۔ غلام مصطفی علوی صاحب نے دست شفقت رکھا۔ گھنٹوں انگریزی گرامر کے رموز سمجھاتے تھے۔ علم تو خیر بقدر ظرف ہی مل سکا، علوی صاحب کی مہربان صورت البتہ زندگی بھر چھاؤں کی طرح ساتھ چلی۔ اچھا استاد زندگی کو آسان کر دیتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے تو آر اے خان سے تلمذ کا اعزاز ملا۔ نامعلوم انہیں اس ٹھٹھرے ہوئے، کم اعتماد اور لرزاں لہجے کے طالب علم میں کیا نظر آیا کہ خاص مہربانی کی۔ اب ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ انگریزی صرف و نحو، ادبیات عالیہ حتیٰ کہ فرنگی مشاہیر کے تفصیلی سوانح تک نوک زبان ہو گئے، ایک کم بخت سامنے کا نکتہ کبھی نہ سمجھ سکا۔ فعل کی دو قسمیں ہیں۔ Transitive اور intransitive۔ سمجھتا بھی کیسے، یہ گرامر کا مسئلہ ہی نہیں تھا، یہ تو پاکستان کی تاریخ کا المیہ تھا۔ transitive یعنی فعل متعدی وہ سلوک ہے جو حکمران عوام کے ساتھ کرتے ہیں۔intransitive یعنی فعل لازم وہ مرحلہ ہے جو حکام کے سلوک کے بعد عوام پر گزرتا ہے۔ وہ غریب ہو جاتے ہیں، بے بس ہو جاتے ہیں، اور پھر مر جاتے ہیں۔ زیادہ دو ٹوک انداز میں سمجھنا ہے تو جان لیجئے کہ ٹویٹ ایک Transitive فعل ہے اور منتخب حکومت کی انفعالی بے بسیintransitive ہے۔
آزادی کی لڑائی ہم نے لڑی۔ میرٹھ سے چلے ، بنگال تک آئے۔ قصہ خوانی بازار میں کھڑے ہوئے۔ جیلیانوالہ باغ میں تاریخ لکھی۔ سائمن کمیشن میں لاٹھی چارج جھیلا۔ لاہور قلعے کے عقوبت خانے سے احمد نگر تک اسیری کی کہانیاں لکھیں۔ کلکتہ کی سڑکوں پر بے موت مارے گئے۔ خواب یہ تھا کہ فعل متعدی کا فیصلہ کسی کو نہیں کرنے دیں گے ۔ ہم اپنے فعل کے خود مالک ہوں گے۔ ہم فعل متعدی سے فعل لازم کی دنیا میں آجائیں گے۔ یہ تو ہم نے نہیں سوچا تھا کہ لیاقت علی خان کوشہید کر دیا جائے گا۔ ناظم الدین کو معزول کر دیا جائے گا۔ ری پبلکن پارٹی بنائی جائے گی۔ ون یونٹ بنایا جائے گا ، ہمارا آئین توڑ دیا جائے گا۔ ہمیں ایک شخصی آئین فرمان کی صورت میں تھمادیا جائے گا۔ ہمارا ملک توڑ دیا جائے گا۔ ہمارے وزیراعظم کو پھانسی دی جائے گی۔ آئین میں 58 ٹو بی نام کی ایک متعدی شق رکھی جائے گی جو جمہوریت اور تمدن کا سر قلم کرے گی۔ ہمارے وزیراعظم جلاوطن کئے جائیں گے۔ ہمارے وزیراعظم بموں سے اڑا دیے جائیں گے۔ شاید کسی کو یاد نہ رہا ہو کل سات مئی تھا۔ راشد رحمن کے قتل کو تین برس ہو گئے۔ راشد رحمن ہاتھ چھوڑنے والا ساتھی نہیں تھا۔ اسے متعدی فعل کا نشان بنایا گیا۔ اس منحوس فعل نے ہمارے ستر ہزار شہری چھین لیے۔ سات دہائیوں سے ہم پا بجولاں گلی کوچوں میں بے وقعت ہیں۔ اپنے دلوں میں بے بسی کا گہرا احساس لئے پھرتے ہیں۔ دنیا کا کارواں دائیں اور بائیں سے گزرتا منزلوں پر منزلیں مار رہا ہے ۔ ہماری گرامر کمزور ہے ۔ ہماری فہم ژولیدہ ہے۔ سیکولر کو ہم ملحد کہتے ہیں۔ ری پبلک کو ہم رجواڑہ سمجھتے ہیں۔پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ کہتے ہیں۔ وفاق کی اکائیوں کو تفرقے کا نشان قرار دیتے ہیں۔ اپنی دین داری موہوم ہے ، دوسروں کے ایمان پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ دھونس کی ثقافت کا خواب دیکھتے ہیں اور شفاف حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ایک عرصہ یہ خیال آتا رہا کہ کہیں ہمارے جینیاتی نقشے میں فی تھی کہ علم میں کوتاہ رہ گئے۔ اب خیال آتا ہے کہ ڈی این اے کا تانا بانا تو سب انسانوں کا قریب قریب ایک جیسا ہوتا ہے۔معاشرے میں انصاف ، ترقی اور رواداری کے لیے فکر اور شعور کی لکیریں کھینچنا ہوتی ہیں ۔ ابھی کل سندھ کے گورنر محمد زبیر نے ایک اجلاس کی صدارت فرما تے ہوئے ارشاد کیا کہ قائداعظم محمد علی جناح لبرل پاکستان چاہتے تھے۔ ارے بھائی اتنا سچ خطرناک ہوتا ہے۔ ابھی چند ہفتے ہوئے وزیراعظم نے ہندو ہم وطنوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس پر منبر و محراب سے جو گل فشانی ہوئی ہے اسے اخبار کے صفحے میں نقل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک درویش پرویز رشید نام کا وزارت تک پہنچ گیا تھا ۔ اس غریب کی تو آف شور کمپنی بھی نہیں تھی ۔ گستاخی یہ ہوئی کہ ایک دو معاملات میں ممنوعہ سچ کہہ دیا۔ میر صاحب اب خوار پھرتے ہیں۔ اگرچہ گورنر سندھ بڑے دبنگ آدمی ہیں ۔ شجرہ نسب بھی مضبوط ہے لیکن مناسب ہو تا کہ لبرل کی اصطلاح احتیاط سے استعمال کرتے۔ ایسا نہ ہو کہ قائد اعظم کی یہ برحق تحسین غداری کی فرد جرم ٹھہرے۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ لبرل کے لفظ کو لغت سے باہر کر دیا جائے۔ یہ لفظ اب بے حیائی ، بغاوت ، کج روی اور اطاعت سے انکار کا استعارہ بن چکا ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ مستند کتابوں میں لبرل کا مفہوم خرد پسند ، علم دوست ، انسانیت نواز، روادار اور امن پسند ہوتا ہے۔ ہم نے اس intransitive فعل کو دشنام ، الزام ، اتہام اور بہتان کے فعل متعدی میں بدل ڈالا ہے۔
خیال تھا کہ 2017 ءایک ہموار برس ہو گا۔ انتخابی مہم کی ہنگامہ آرائی ہو گی۔ ایک سے بڑھ کر ایک منشور پیش کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیم میں نئی روح دوڑے گی۔ عوام کے سامنے ترجیحات کی فہرست رکھی جائے گی ۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر عوام جواب دہی کریں گے کہ 2013 ءسے محمد نواز شریف اور ان کے رفقا نے کیا کارکردگی دکھائی ، کیا ترقیاتی کام ہوئے۔ دہشت گردی کا گراف کم ہوا یا زیادہ۔ توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کیا کوششیں کی گئیں ۔ وفاق کی اکائیوں میں ہم آہنگی کی صورت حال کیا رہی ۔ قانون سازی کی کیفیت کیا رہی۔ یہ تو رہا خواب اور اب حقیقت احمد مشتاق کے لفظوں میں پڑھتے ہیں۔
یہ جو بھی ہو بہار نہیں ہے جناب من
کس وہم میں ہیں دیکھنے والے پڑے ہوئے
اس معرکے میں عشق بے چارہ کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ ہمیں ایک نیا بیانیہ چاہئے۔ یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم، وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔ ہماری تسلی کے لیے شعیب بن عزیز کا ایک شعر کافی ہے۔ امید کا پہلو اس میں کم ہے اور سچ تو یہ ہے کہ متعدی فعل کے مقہور امید کا پیالہ کہاں سے لائیں۔ شعیب کا شعر ہی پڑھ لیتے ہیں۔
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے
(بشکریہ:ہم سب)