این اے 120 کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ سامنے آ گیا۔ توقع کے مطابق مسلم لیگ نواز، نواز شریف، بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز نے یہ معرکہ جیت لیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ضمنی انتخاب ہارنے والے ابھی ہارے نہیں۔ پیر مغاں کا کام اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ ہزار بادہ ناخوردہ در رگ تاک است۔ سترہ ستمبر اور اس سے کچھ پہلے لاہور میں جو واقعات پیش آئے، ان پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئیے، الا یہ کہ کچھ اصحاب خوش فہمی پالے بیٹھے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا ہے۔ نیز یہ کہ اعلیٰ عدالتوں میں انصاف کا چشمہ بہہ رہا ہے۔ راولپنڈی کی مری روڈ پر میٹرو کی تعمیر کے بعد سے دستور کی بالادستی قائم ہو چکی ہے۔ این اے 120 میں فتح اور شکست میں ووٹوں کی تعداد کم کرنا تھی اور وہ چالیس ہزار سے کم ہو کر چودہ ہزار رہ گئی۔ ہم جیسے خیر خواہ بدگمانی، مایوسی اور خونی پیچش کے مزمن مریض ہیں۔ سو ایک حوالہ اپنی تاریخ سے لیتے ہیں اور ایک یورپ سے مستعار لیتے ہیں۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، بادہ و ساغر کے حوالے صرف برادر بزرگ دیتے ہیں؟
1979ءکا برس تھا۔ لاہور کے ناصر باغ میں پیپلز پارٹی نے جلسہ کیا۔ ناصر باغ اتنی بڑی جلسہ گاہ ہے کہ اب سیاسی جماعتیں یہاں پر جلسہ نہیں کرتیں۔ بیگم نصرت بھٹو کے جلسے سے موازنہ ہوتا ہے تو قلعی کھل جاتی ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کے جلسے میں لوگوں کا ہجوم ناصر باغ سے چھلک کے کرشن نگر کی گلیوں تک جا پہنچا۔ انتخابات میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ لاہور کے زندہ دلوں کا رنگ بیاں دیکھ کر لاہور، پشاور اور پیر جو گوٹھ سے کئی محب وطن (نیز نظریہ پاکستان کے پاسبان) اسلام آباد جا پہنچے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق کو خبر پہنچائی کہ کام تو بگڑ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی ابھی تک زندہ ہے اور پاکستان قومی اتحاد کا مردہ خراب ہو رہا ہے۔ انتخابات منعقد ہوئے تو گلشن کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ سو انتخابات ملتوی کر دئیے گئے۔ ٹھیک بیس برس پہلے 1958 میں اسکندر مرزا نے بھی انتخابات کا نتیجہ حسب ذائقہ نہ پا کر آئین منسوخ کر دیا تھا۔ یحییٰ خان سے البتہ پہاڑ جیسی غلطی ہوئی۔ قیوم خان اور میاں طفیل کے بھرے میں آ کر انتخابات منعقد کروا دئیے۔ ووٹوں کا فیصلہ آیا تو یحییٰ خان کے ہاتھ کٹ گئے۔ بالآخر پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا۔ ضیا الحق تو ایسی غلطی نہیں کر سکتے تھے۔ سیاسی جماعتیں کالعدم، جلسہ جلوس بند، ہاٹ بازار میں شمشان گھاٹ، اخبارات پہ پری سنسر۔ آتش فشاں کا دہانہ کھل گیا۔ ارے وہ یورپ کا حوالہ تو رہا جاتا ہے۔ نومبر 1975ءمیں چالیس سالہ آمریت کے بعد جنرل فرانکو کی موت واقع ہوئی تو اہل سپین نے جمہوریت کا راستہ اختیار کر لیا۔ بیالیس برس گزر چکے ہیں۔ سپین اب ایک مستحکم جمہوریت ہے۔ این اے 120 میں ووٹوں کا فیصلہ ہوا ہے اور ایک طویل سیاسی کشمکش کا دروازہ کھل گیا ہے۔ وجہ اس کی برادر عزیز سہیل وڑائچ نے بیان کر دی کہ کنفیوژن بہت ہے۔ دلوں پہ گرتے برف کے گالے چھوٹے چھوٹے ٹیلے بن رہے ہیں۔ باہر آگ ہے اور اندر جنگل ہے۔ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ جنگل کو شہر بنانا ہے یا محفل کو برہم کرنا ہے۔ جنگل کا قصہ پرانا ہے۔ اکتوبر 1958ءمیں انجم رومانی نے کہا تھا، ’ہوشیار آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا‘۔ 1975ءمیں بھٹو صاحب نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال کو پیغام بھیجا تھا کہ ’ابھی ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے‘۔
جنگل طاقت اور زورآوری کا بندوبست ہے۔ جنگل سے نکلنے کے لیے انسانوں نے شہر بسائے ہیں، اخلاق کے اصول مرتب کیے ہیں۔ قانون کی تدوین کی ہے۔ ادارے تعمیر کیے ہیں۔ روایات کی آبیاری کی ہے۔ جنگل اور شہر کے درمیان چھاؤنی پڑتی ہے۔ یہ منطقہ جنگل نہیں ہے لیکن چھاؤنی شہر سے جدا ایک دنیا ہے۔ چھاؤنی شہر کو جنگل سے محفوظ رکھنے کی فصیل ہے۔ چھاؤنی کھیت کو درندوں سے بچانے کے لیے لگائی گئی باڑ ہے۔ باڑ کا کھیت کو کھانا مناسب نہیں۔ چھاؤنی کا شہر میں چلے آنا اچھی خبر نہیں۔ چھاؤنی اور شہر میں تعلق دراصل جنگل کو شہر سے امتیاز بخشنے پر اتفاق رائے ہے۔ انسانی تاریخ چھاؤنی کے راستے تمدن تک پہنچی ہے۔ تمدن میں بحث مباحثے، ووٹ اور قانون کی مدد سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ چھاؤنی میں خطرے کا مقابلہ کرنے کی طاقت مرتب کی جاتی ہے۔ شہر میں امکان کو نمو دی جاتی ہے۔ خطرے کی حدود پھیل جائیں تو امکان کی کھیتی کملا جاتی ہے۔ ہم نے ابھی یہ بحث نہیں سمیٹی کہ چھاؤنی اور شہر کی حدود کیا ہوں گی، فیصلہ کرنے والی آنکھ بندوق سے شست باندھے گی یا کاغذ کے ٹکڑے پر ووٹ کی مہر لگائے گی۔
اس میں ایک بہت اہم معاملہ درس گاہ کے کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ یونیورسٹی کا نصاب اور کمرہ جماعت کا مکالمہ بحکم ضلعی انتظامیہ طے نہیں کیا جا سکتا۔ یونیورسٹی علم کی سول ڈسٹری بیوشن کا بندوبست نہیں۔ یونیورسٹی میں علم کی آڑھت نہیں ہوتی۔ یہاں علم تخلیق کیا جاتا ہے۔ ادھر پیدا ہونے والا علم گلی کوچوں اور آنگنوں کو سیراب کرتا ہے۔ یونیورسٹی میں بندوق برداروں کے خیمے گاڑ دئیے جائیں گے تو علم سہم جائے گا۔ سہما ہوا علم بندوق سے خوف بھی کھاتا ہے اور بندوق کی خواہش بھی پالتا ہے۔ یونیورسٹی کے پاس ہی کہیں منڈی بھی پائی جاتی ہے۔ منڈی بھی شہر سے تعلق رکھتی ہے۔ سادہ سا اصول ہے، چھوٹی منڈی بڑی منڈی سے ہاتھ ملاتی ہے تو صنعت و حرفت اور تجارت کا دائرہ وسعت پاتا ہے۔ منڈی میں خرید و فروخت کا بازار گرم ہو تو چھاؤنی کا کردار محدود ہو جاتا ہے۔ معلوم کرتے رہنا چاہئیے کہ چھاؤنی منڈی پر اجارہ تو نہیں رکھتی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بے وقعت نہیں ہونے دیا جائے گا۔ احسن اقبال کا ارادہ نیک ہے تاہم جاننا چاہئیے کہ پارلیمنٹ کے وقار کا تعین یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ یونیورسٹی کو جنم نہیں دیتی۔ یونیورسٹی سے علم کا سودا لے کر نکلنے والے پارلیمنٹ کا وقار بڑھاتے ہیں۔ خود یونیورسٹی کے اندر سائنس اور فلسفے کے منطقے موجود ہیں۔ فلسفہ تاریخ اور ادب کے طالب علم سائنس کی کارگاہوں کے حقیقی محافظ ہوتے ہیں۔ احسن اقبال کے بارے میں تاثر ہے کہ فلسفے میں چنداں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاریخ سے مفید مطلب حوالے اٹھا رکھے ہیں۔ ادب کو کار لاحاصل شمار کرتے ہیں۔ جاننا چاہئیے کہ درس گاہوں میں فلسفہ، تاریخ اور ادب کی روایت مضبوط ہو گی تو سائنس کے طالب علم خود ساختہ دھماکہ خیز مواد بنانے کی بجائے تمدن کی خدمت کریں گے۔ فلسفہ اور سائنس کے اتحاد سے آئین کا آرٹیکل 19 مستحکم ہو گا۔ اس مسودہ قانون کو طاق میں رکھ دیجیے جس میں صحافت کی سال بہ سال تجدید کی تجویز دی گئی ہے۔ آزادی کا دائرہ آئین طے کرتا ہے۔ آزادی کو لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آئین میں دی گئی آزادیاں ہر شہری کے لیے مواقع کی کھڑکی کھولتی ہیں۔ یہ کھڑکی اخبار میں بھی کھلنی چاہئیے اور کتاب میں بھی۔ تاکہ طے پا سکے کہ چھاؤنی اور شہر میں حد فاصل کہاں کھینچی جائے گی۔ جہاں تک این اے 120 کے نتیجے کا تعلق ہے تو یہ معرکہ کاغذ پر جیتا گیا ہے، ابھی دلوں میں اس کا عکس نہیں اترا۔ خندق کچھ اور گہری ہو گئی ہے۔ یہ ضمنی انتخاب ایک لمبے سفر کا پہلا نشان دکھائی دیتا ہے۔
(بشکریہ:ہم سب ۔۔ لاہور)