اپنا دل بہلانے کو بھلے کوئی بھی خود کو افلاطون قرار دے سکتا ہے لیکن ہم میں سے ہر ایک کو اپنے علم کی حدود اور لاعلمی کی وسعت معلوم ہے۔ رعونت ایک حنوط شدہ پرندہ ہے جو پرواز تو کیا، اڑان بھرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اعترافِ عجز میں بہتری کا امکان موجود رہتا ہے جو غرور کے دھندلکے میں مسدود ہو جاتا ہے۔ صحافت میں یہ اصول روزمرہ زندگی سے کہیں زیادہ موزوں طور پر منطبق ہوتا ہے۔ سیاست بذات خود پیچیدہ ترین انسانی سرگرمی ہے اور زندگی سیاست سے بھی آگے ایک بحر بے کنار ہے۔ صحافت سیاست کا ایک جزو ہے اور صحیح صحافت بھی کسی حد تک جمہوریت ہی میں ممکن ہو سکتی ہے۔ دنیا کی بہترین جمہوری ریاستوں میں بھی صحافت ایک نیم تاریک منطقہ ہے۔ خبر گھڑی جاتی ہے۔ خبر دبائی جاتی ہے۔ کہیں صحافی خبر بنتا ہے تو کہیں اخبار پہ دباؤ آتا ہے۔ اگلے روز برادر بزرگ نے کالم کی صنف پر خیال افزا نثر کا ایک ٹکڑا عطا کیا اور پھر اپنے مخصوص Understatement انداز میں بہت سی مثبت اور خوشگوار خبروں کی لین ڈوری باندھ دی۔ یہ اشارہ البتہ دیا کہ اگر حکومت نے فیڈرل کورٹ قائم کرنے کی کوشش کی تو ایک نئے بحران کا خدشہ موجود ہے۔ طالب علم کی رائے میں موجودہ سیاسی بندوبست میں ایسی کسی کوشش کا امکان بہت کم ہے۔ اچھی خبروں میں پی آئی اے کی نجکاری میں پیش رفت کا ذکر کیا۔ امریکا سے روابط بہتر ہونے کی اطلاع دی۔ خلیجی ریاستوں سے ممکنہ سرمایہ کاری کے خد و خال بیان کیے۔ شرح سود اور مہنگائی میں کمی تو سامنے کے حقائق ہیں۔ ٹائیکون صاحب کے بارے میں اگرچہ کھل کے بات نہیں کی لیکن یہ اشارہ ضرور ملا کہ پرانے زمانے کے سیٹھ قاسم اور سیٹھ عابد کی طرح آج بھی ریاست عملی طور پر ٹائیکون کے پنجہ گرفت میں ہے۔ خیال رہے کہ یہ سب خبریں ہیں۔ چائے کی لبریز پیالی اور لعل بدخشاں ہونٹوں میں بہت سا فاصلہ ہے۔
معیشت کو لیجیے۔ 2016 ءکے بعد سے ہماری معیشت کا حجم چار سو ارب ڈالر کی رسی سے بندھا ہے۔ شرح نمو معیشت کا کلیدی اشاریہ ہے لیکن اس شرح نمو کو عوام کے معیار زندگی اور برآمدات میں اضافے کی صورت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ اس اشاریے کی معنویت سمجھنے کے لیے ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ملک پر ایوب آمریت مسلط تھی۔ 1963 میں معیشت کی شرح نمو 8.69 فیصد، 1964 میں 7.57 فیصد، 1965 میں 10.42 فیصد رہی لیکن یہ معاشی ترقی سیاسی استحکام اور پائیدار ترقی کی صورت اختیار نہیں کر سکی۔ 1970 میں یحییٰ آمریت کی دھوپ میں ملک بکھر رہا تھا لیکن معیشت کی شرح نمو 11.35 فیصد تھی جب کہ 1971 میں شرح نمو 0.47 فیصد اور 1972 میں 0.81 فیصد رہ گئی۔ ضیا آمریت میں ہم پر پھر امریکی امداد کا طلسمی دروازہ کھلا۔ 1980 میں شرح نمو 10.22 فیصد، 1981 میں 7.92 فیصد، 1982 میں 6.54 فیصد اور 1983 میں 6.78 فیصد رہی۔ مشرف عہد میں نائن الیون کا من و سلویٰ اترا۔ 2004 میں معیشت کی شرح نمو 7.83 فیصد، 2005 میں 7.28 فیصد اور 2006 میں 6.5 فیصد رہی۔ سوال یہ ہے کہ معیشت میں ترقی کی یہ شرح عام آدمی کے معیار زندگی پر اثر انداز کیوں نہیں ہو سکی۔ اس دوران جمہوری حکومتوں میں 1993 میں شرح نمو 1.76 فیصد، 1997 میں 1.1 فیصد اور 2020 میں منفی 1.27 فیصد اور 2023 میں منفی 0.0 فیصد رہی۔ سامنے کی بات ہے کہ ہماری معاشی ترجیحات میں طویل مدتی اور پائیدار ترقی کبھی موجود ہی نہیں تھی۔ ہم تو کشکول پکڑے لطیفہ غیبی کے منتظر رہے۔
اب موجودہ زمینی صورتحال پر نظر ڈالیے۔ پاکستان میں بالغ شرح خواندگی 60 فیصد ہے۔ گویا ٹھیک دس کروڑ بالغ شہریوں نے کبھی سکول کا دروازہ نہیں دیکھا۔ اس ہجوم کے عین پیچھے سکول جانے کی عمر کے دو کروڑ 80 لاکھ بچوں کا وہ لشکر بھی گن لیجیے جو اس وقت سکول سے باہر ہے اور چند برس میں بالغ ناخواندگی کا حصہ بن جائے گا۔ 40 فیصد کے اس عدد کو اس خبر سے ملا کر دیکھئے کہ پاکستان کی ٹھیک 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ گویا پاکستان کے ٹھیک دس کروڑ شہریوں کی روزانہ آمدنی تین ڈالر سے کم ہے۔ یہ اعداد و شمار 2020 ءکے ہیں۔ اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کے نتائج ابھی دستیاب نہیں۔ ڈالر مہنگا ہونے سے روپوں میں اجرت لینے والے کی قوت خرید کم ہوتی ہے۔ اس معاشی صورتحال کا دیگر ممالک کی معیشت سے موازنہ اس لیے مناسب نہیں کہ ہم اپنے ملک کا بنیادی سیاسی تضاد حل کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری قومیں معیشت میں اونچ نیچ کا شکار ہوتی ہیں لیکن ان کی آنکھ انسانی ترقی کے نشیمن پر ہوتی ہے اور یہ منصب سیاسی قیادت کا ہے۔ ہمارے ملک کا بنیادی سیاسی تضاد عوام اور ریاست میں لاتعلقی ہے۔ ریاست اپنی ترجیحات میں عوام کو جواب دہ نہیں، جس کے نتیجے میں عوام قومی ترقی سے لاتعلق ہو کر ذاتی مفاد کے خول میں سکڑ جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں کسی بڑے شاپنگ مال کی تعمیر یا کراچی میں ساحل سمندر پر کوئی بڑا منصوبہ محض ایک ٹوٹکا ہے۔ ناف کے سرطان کا علاج کیے بغیر قوم کے غیر مستحکم، منقسم اور لاقانونیت سے تشکیل پانے والے تشخص سے نجات نہیں۔ قوموں کو دستور کے دائرے میں سیاسی عمل کے ذریعے معاشی ترقی کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ غیر سرکاری ادارے پتن کے سربراہ محترم سرور باری کچھ ایسے گمنام شہری نہیں ہیں۔ انہوں نے 2024 کے انتخابات پر قابل قدر عرق ریزی کی ہے لیکن یہ نشان دہی کرنے سے چوک گئے ہیں کہ 8 فروری 2024 کے انتخابات اس تمثیل کا محض ایک منظر ہیں جو بینظیر بھٹو کی شہادت، کیری لوگر بل کی مخالفت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کو چھ نکات جیسا خطرناک سمجھنے سے شروع ہوا تھا۔ ناف کے اس سرطان کی جڑیں جسد اجتماعی میں ہر طرف موجود ہیں۔ اپنی مرضی کے روگ زدہ پارچے کی نمائش سے مرض کی درست تشخیص ممکن ہے اور نہ علاج۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ