پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعوی کیا ہے کہ انٹیلی جینس اطلاعات ہیں کہ انڈیا سولہ سے بیس اپریل کے درمیان کوئی فوجی قدم اٹھا سکتا ہے اور اس کے لیے کشمیر میں پلوامہ طرز کی کوئی کارروائی کر کے اسے بہانے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ وزیرِ خارجہ پچھلے مہینے بھی کہہ چکے ہیں کہ انڈیا نے بہاولپور پر میزائل داغنے کا منصوبہ بنایا تھا جہاں جیشِ محمد کے رہنما مولانا مسعود اظہر کا گھر ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی کہ انڈیا نے پاکستان کے تین شہروں کو ایٹمی میزائل کے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ اس کے جواب میں انڈیا کو پیغام بجھوایا گیا کہ کسی بھی ایٹمی مہم جوئی کے جواب میں نو انڈین شہر بھی پاکستان کے نشانے پر ہیں۔وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ عالمی برادری چھبیس فروری کو بالاکوٹ پر انڈین فضائی حملے پر مفاداتی مجبوریوں کے سبب خاموش رہی۔ حالانکہ دو ایٹمی ہمسائیوں کے مابین کشیدگی میں کمی کے لیے عالمی برادری کو متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی لیے وہ دوبارہ عالمی برادری کو انڈین عزائم سے پیشگی خبردار کر رہے ہیں۔
المختصر پاکستان کا خیال ہے کہ جب تک انڈیا میں لوک سبھا کا انتخابی عمل مکمل نہیں ہو جاتا جنوبی ایشیا کا امن ایک مہین دھاگے سے لٹک رہا ہے۔اگر انیس سو اڑتالیس کی جنگِ کشمیر سے انیس سو نوے کی جنگِ کرگل تک کی پاک بھارت رزمیہ تاریخ دیکھی جائے تو یا تو بھرپور جنگ ہوئی یا پھر بلاواسطہ (پراکسی) جنگی ماحول رہا۔ اب اس کھیل میں سرجیکل سٹرائکس کا نیا تصور بھی متعارف ہو گیا ہے۔ یعنی انڈیا کے نئے فوجی نظریے کے مطابق مکمل جنگ سے بچتے ہوئے بھی اندر گھس کے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ تصور اس لیے پیدا ہوا کہ امریکہ نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دو ہزار پانچ سے اب تک سینکڑوں ڈرون حملے کئے۔امریکی فضائیہ کی ایک سے زائد بار بمباری سے بہت سے پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ حتی کہ مئی دو ہزار گیارہ میں امریکی ہیلی کاپٹرز نے پاکستانی سرحد میں سو کلو میٹر سے زائد گھس کر ایبٹ آباد میں کامیاب فوجی آپریشن کیا مگر پاکستان سوائے مذمت کے کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکا۔ طیارہ اور ہیلی کاپٹر تو چھوڑ پاکستان ایک امریکی ڈرون تک نہیں گرا پایا۔ بس یہی کہا جاتا رہا کہ ہم چاہیں تو مار گرا سکتے ہیں۔پاکستان کے کئی برسوں پر پھیلے اس مصلحت آمیز رویے نے ہی غالباً بھارتی فوجی ڈاکٹرائین میں سرجیکل سٹرائکس کے تصور کی حوصلہ افزائی کی۔ مگر یہ تصور نیا نہیں، نہ ہی اسے سمجھنا راکٹ سائنس ہے۔ یہ دراصل کمزوری اور طاقت کا معرکہ ہے۔امریکہ نے جنگِ ویتنام کے دوران لاؤس اور کمبوڈیا پر بمباری کر کے انہیں کھنڈر بنا دیا کیونکہ وہاں امریکہ کے خیال میں ویت کانگ گوریلوں کو امداد اور پناہ مل رہی تھی۔ اسرائیل جب چاہتا ہے شام اور لبنان کو فضائی و زمینی نشانہ بنا لیتا ہے۔ اس سے پہلے وہ یوگنڈا اور تیونس میں بھی سرجیکل سٹرائکس اور آپریشن کر چکا ہے۔ اسرائیل کو یقین ہے کہ جوابی کارروائی کا کوئی خطرہ نہیں۔پاکستان بھی اس وقت پہلے سے زیادہ معاشی، سیاسی و سفارتی کمزوری کا شکار ہے۔ چین بھلے پاکستان کا یارِ طرح دار سہی مگر چین تو لاؤس کا بھی دوست تھا۔ سوویت یونین تو شام کا بھی دوست ہے۔ دوستیاں توازنِ طاقت برقرار رکھنے میں ایک محدود کردار تو ادا کرتی ہیں مگر کوئی بڑا ملک کسی اور چھوٹے ملک کے لیے اپنے عسکری و علاقائی مفادات مکمل داؤ پر لگا دے ایسے کہاں ہوتا ہے۔ بنیادی جنگ تو ہر ریاست کو خود ہی لڑنا پڑتی ہے اور اس کے لیے اقتصادی، سیاسی و اندرونی دم چاہیے۔ یا پھر ایسی صلاحیت کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لی جائے۔اس وقت انڈیا پاکستان پر حملہ نہ بھی کرے اور صرف ایسی جنگی فضا برقرار رکھے جس کے سبب پاکستان چوبیس گھنٹے اپنی ایڑیوں پر رہے تو یہ حکمتِ عملی بھی پاکستانی معیشت کو مسلسل کمر توڑ دباؤ میں رکھنے کے لیے کافی ہے۔ امریکہ نے سوویت یونین پر کوئی روایتی حملہ تو نہیں کیا تھا۔ بس سرد جنگ کے ذریعے ہتھیاروں کی دوڑ کا خرچہ بڑھوا دیا تھا۔ اس دباؤ کی تاب امریکہ تو لے آیا سوویت یونین نہ لا سکا۔ہاں بین الاقوامی برادری اپنے مفادات کے باوجود ٹس سے مس ہو سکتی ہے۔ مگر بین الاقوامی برادری کو صرف باتوں کے شربت سے تو خوش نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ نہ کچھ تو اعتبار کی فضا قائم کرنا ضروری ہے اور سب سے بڑا اعتبار یہ کہ ہمارے قول و فعل، وعدے اور عمل میں کوئی تضاد نہیں، ہم دوہری شخصیت کے مالک نہیں اور ہم واقعی علاقائی و بین الاقوامی امن اور معیشت میں اخلاص کے ساتھ ساجھے دار بننا چاہتے ہیں کسی کی مفاداتی کٹھ پتلی بنے بغیر، اجرتی علاقائی خدمات بجا لائے بغیر اور صرف اور صرف اپنے عوام کے فلاحی مفادات کے نمائندے بن کر۔ورنہ تو اپنی پالیسیاں بہت مدت سے منیر نیازی کے شعری نظریے کی اسیر ہیں ہی۔
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غماں دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وہ ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
( بشکریہ : بی بی سی اردو )