اس نے دیوار کی طرف منہ کر کے پیشاب کرنے کے بعد استنجائی ڈھیلا زمین پر رکھ کے کمربند کستے ہوئے ذرا فاصلے پر اسی عمل میں اکڑوں بیٹھے شناسا سے پوچھا یار تم نے ماہرہ خان کی بے غیرتی دیکھی؟
رنبیر کپور اور ماہرہ خان کی ’شرے عام‘ سگریٹانہ تصاویر پر قومی ڈیجیٹل بحث آخر کیوں برپا نہ ہو۔ یہ غالب کا نان ڈیجیٹل زمانہ تو ہے نہیں کہ وہ اپنے دور کی کسی ماہرہ خان کے بارے میں ’تو اور آرائشِ خم ِ کاکل، میں اور اندیشہِ ہائے دور دراز‘ سوچ کے کروٹ بدل لیتے تھے۔جب بیس کروڑ کی آبادی میں سے چودہ کروڑ کے پاس موبائل فون، ساڑھے چار کروڑ کے پاس تھری جی فور جی اور چار کروڑ کے پاس انٹرنیٹ کنکشن ہو اور ان سب فونچیوں اور نیٹچیوں کی یو ٹیوب، فیس بک، وٹس ایپ اور ٹوئٹر تک حسبِ منشا رسائی ہو اور ویہلا پن اس رسائی سے بھی کئی گنا ہو پھر تو ماہرہ خان کے چال چلن پر نمکین بحث بنتی ہے۔ایسا نہیں کہ خدانخواستہ ہم بحیثیت قوم یکطرفہ غیرتی ہیں۔ جب گذشتہ برس ماہرہ خان سمیت کئی پاکستانی فنکاروں کو بالی وڈ کی فلموں سے نکالنے اور بائیکاٹ کی شیوسینائی مہم شروع ہوئی تب پورا آل پاکستان فونچی نیٹچی اتحاد ماہرہ اور فواد خان سمیت تمام متاثرینِ بالی وڈ سے اظہارِ یکجہتی میں ایک تھا۔مگر ماہرہ خان کی تصاویر میں دراصل کیا شے زیادہ قابلِ اعتراض ہے؟اس مدعے پر فونچی نیٹچی اتحاد میں دراڑیں واضح ہیں۔ کسی کو کھلے عام سگریٹ نوشی پر، کسی کو ایک زنانی کے سگریٹ پینے پر، کسی کو نامحرم کے ساتھ اور کسی کو ایک نامحرم اور وہ بھی ہندو ایکٹر کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پینے پر، کسی کو پوری کمر ڈھانپے بغیر سگریٹ پینے پر تو کسی کو سکرٹ پہن کے سگریٹ پینے پر صدمہ ہے۔ایک پورا ڈیجیٹل طبقہ ماہرہ خان کا حمایتی بھی ہے۔ اس کی سب سے بہتر نمائندگی ’دی ماہرہ خان‘ نامی ٹویٹر ہینڈل پر نظر آئی’میں سگریٹ پئیوں، چرس پئیوں، ٹیکے لگاؤں، جو مرضی کروں۔ تمہارے پیو کا تو نہیں کھاتی۔‘
اس ٹویٹ پر ماہرینِ ماہرہ کے درمیان ایک الگ لسانی بحث چل پڑی۔ ایک محقق نے کہا ماہرہ خان پنجابی نہیں کہ پیو کا لفظ استعمال کرے۔ وہ اردو داں ہے ۔اگر یہ ٹویٹ اصلی ہوتی تو جملہ یوں ہوتا ’میں جو چاہے کروں آپ کے والدِ محترم کے ٹکڑوں پر نہیں پلتی‘۔ پس ثابت ہوا کہ ٹویٹ جعلی ہے۔ایک فیس بکیے نے لکھا کہ یہ فضول بحث دراصل پوسٹ پاناما سنڈروم ہے۔ایک نے تو پوری نظم لکھ ماری۔
’عورت کے سگریٹ پینے پر آسمان سر پر اٹھانے والے
خود کش حملوں پر چپ سادھنے والے
حکمرانوں کی کرپشن پر دوسری طرف دیکھنے والے
بے حس لوگ، بیمار سماج، زندہ لاشیں۔‘
ایک صاحب نے اپنی پوسٹ میں بحث یوں سمیٹی کہ ’ماہرہ خان تم آج ہماری وجہ سے ہی ماہرہ خان ہو۔ مگر اب ہم چاہتے ہیں کہ تم فلمی دھندہ چھوڑ کے گھر کا کام کاج سنبھالو اور شام کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کے گزارہ کرو۔ اس سے کم پر ہمیں ٹھنڈ نہیں پڑ سکتی۔‘شکر ہے اب تک وینا ملک، قندیل بلوچ فیم کسی پھپا کٹنے ٹی وی اینکر کے بیچ اس مسئلے کو علماِ کرام کو کدوانے کا خیال نہیں آیا۔ پر خیال آتے دیر تھوڑا لگتی ہے۔معاملہ دراصل یوں نہیں کہ ’ماہرہ خان کو دیکھا تو لہو کھول اٹھا، تیرے حاسد تیرے جانباز چلے آتے ہیں۔‘ معاملہ اندر خانے کچھ اور ہے۔جب میں پہلی بار مئی 1991 میں لندن پہنچا تو ایک گورے کے ساتھ ایک ایشین لڑکی کو بانہوں میں بانہیں ڈالے دیکھ کے آنکھیں پھٹ گئیں۔ لیکن جب میں نے ایک سیاہ فام اور ایک ایشین لڑکی کو ہاتھ پکڑے چلتے دیکھا تو آنکھوں میں خون اتر آیا۔ شاید ہم ایشینز کے ساتھ کوئی لاشعوری جنیٹک مسئلہ ہے۔
تم اگر مجھ کو نہ چاہو تو کوئی بات نہیں
تم کسی اور کو چاہو گی تو مشکل ہو گی
پر ساحر لدھیانوی کے لکھے مکیش کے گائے اس گیت کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اسے ’دل ہی تو ہے‘ میں راج کپور پر فلمایا گیا کہ جس کے پوتے رنبیر کپور کے ساتھ اپنی ماہرہ خان ننگے پنڈے بیباکی سے کش کھینچ رہی ہے اور دل ہمارا جل رہا ہے۔ کاش یہی تصویر کرینہ کپور کی فواد خان کے ساتھ ہوتی تو قومی نظریہِ غیرت پر ایک عجب سی بہار آ جاتی۔
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ