چار روز پہلے میر پور خاص میں ذوالفقار علی بھٹو کی نویویں سالگرہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے فرمایا کہ اگرچہ میرا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں لیکن مجھ میں بھٹو کی روح داخل ہو گئی ہے۔پیپلز پارٹی مزدوروں اور مظلوموں کی جماعت ہے اور وہ تمام مظلوموں کو حقوق دلوائیں گے۔بھٹونے یہی سکھایا ہے۔آج غریب عوام کو جو کچھ بھی دیا پیپلز پارٹی نے دیا۔عوام سے جو وعدے کیے پورے کیے وغیرہ وغیرہ۔
ایک بار کراچی کے ایک سینئر شاعر و نقاد جاذب قریشی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دوران صاحبِ کتاب کی شخصیت اور فن کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مقرر نے نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت ِ جاذب قریشی موجودہ دور کے محمد حسین آزاد ہیں۔اس پر اردو کے ممتاز ادبی کالم نگار اور پارکھ مرحوم مشفق خواجہ نے لکھا ’’یعنی محمد حسین آزاد اپنے دور کے جاذب قریشی تھے‘‘۔
اگر کوئی اور حضرتِ آصف علی زرداری کی مدح میں اتنا آگے بڑھ جاتا کہ زرداری صاحب میں بھٹو کی روح حلول کر گئی ہے تو میں اسے ایک تعلی سمجھ کے نظرانداز کردیتا۔مگر یہ بات چونکہ زرداری صاحب نے بہ زبانِ خود کہی ہے لہذا اس کے محرکات ڈھونڈنا ضروری ہے۔لیکن اتنی کھکیڑ کی کیا ضرورت ہے۔ اگر بقول زرداری صاحب ڈاکٹر طاہر القادری آج کے نوابزادہ نصراللہ خان ہو سکتے ہیں تو خود ان میں بھٹو کی روح کیوں حلول نہیں کر سکتی ؟ البتہ ڈاکٹر صاحب کا منصب اتنا پست کردینا کہ انھیں نوابزادہ کے برابرلے آنا خود ڈاکٹر صاحب کی شان میں گستاخی سے کم نہیں۔
ا ﷲ ا ﷲ ! جس نے عالمِ رویا میں امام ابو حنیفہ علیہہ رحمتہ کے آگے بارہ برس تک زانوئے تلمذ تہہ کیا ہو ایسی متبرک ہستی کو نوابزادہ نصراﷲ خان جیسے معمولی سیاستداں کے برابر کھڑا کر دینا۔ استغفراﷲ۔ زرداری صاحب کی اس گستاخی پر ڈاکٹر صاحب کو برافروختہ ہوکر پیپلز پارٹی سے منگنی توڑ دینے کا پورا پورا حق تھا۔مگر ڈاکٹر صاحب کا ظرف بھی انھی کی طرح وسیع ہے لہذا یہ سمجھ کر شائد دل ہی دل میں زرداری صاحب کو معاف کر دیا ہو کہ ’’ جن کے رتبے ہیں سوا ، ان کی سوا مشکل ہے‘‘۔
بات ہو رہی تھی بھٹو صاحب کی روح زرداری صاحب میں حلول کرنے کی اور میں بھی کہاں سے کہاں بہہ گیا۔ بی بی کو دیکھ کے ضرور اکثر لگتا تھا کہ ان میں باپ کی روح بول رہی ہے اور بلاول کے انداز کو دیکھ کے بھی کبھی کبھی لگتا ہے کہ بیٹے میں ماں بول رہی ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو کی روح آج چالیس برس بعد بھی اس قدر بے چین ہو کہ اسے شانت ہونے کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ نہ مل رہا ہو اور وہ جہاں خلا دیکھ رہی ہے وہیں قیام کرتی پھر رہی ہے۔ایسا میں نے کم ازکم چار دن پہلے تک نہ سوچا تھا۔
کچھ سوچا تھا تو بس یہ کہ جس کارکن نے خود کو بھٹو کی سزائے موت کے خلاف بطور احتجاج بھرے بازار میں آگ لگا لی تھی، جو جو جیالا جئیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے ضیا الحق کے تختہِ دار تک چل کر گیا اور پھانسی کا پھندہ چوم کر گلے میں ڈال لیا ، جس جس نے بھی انیس سو تراسی اور چھیاسی کے سندھ میں کموں شہید سینوری آباد تک ننگی گولیوں کے سامنے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے زمین پر گرنا پسند کیا اور پسماندگان میں خون کی سرخ لکیر بھی چھوڑی شاید ان سب کے جسموں میں بھٹو کی روح گھس گئی تھی۔ایسا دیوانہ پن بازار میں تو نہیں ملتا۔
میری نسل شمس تبریز اور رومی، مادھو لال اور حسین، سرمد اور ابھے چند کے یک جان دو قالب ہونے کے قصے سن سن کے بڑی ہوئی ہے مگر زرداری میں بھٹو ؟؟ (خبروں میں رہنے کے لیے کچھ بھی کرے گا )۔
تاہم آصف زرداری کی بات جھٹلانے کی بھی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔میں گمان کر سکتا ہوں کہ اگر ان کے جسم میں بھٹو کی روح آئی بھی ہے تو میر پور خاص کے جلسے میں اسٹیج پر چڑھنے کے دوران ہی یہ معجزہ ہوا ہوگا۔کیونکہ اگلے ہی سانس میں انھوں نے اپنے تاریخی خطاب میں یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی مظلوموں کی جماعت ہے اور وہ تمام مظلوموں کو حق دلوائیں گے (انھی کے گھر میں پہلی مظلوم تو خود بی بی کی روح ہے جو آج بھی انصاف کی تلاش میں دربدر ہے )۔
میں صحت کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ زرداری صاحب پانچ جنوری کو ہیلی کاپٹر سے میر پور خاص کی جلسہ گاہ پہنچے یا پھر سڑک کے راستے تشریف لائے۔ کیونکہ سڑک پر تو جگہ جگہ وہ کسان بیٹھے ہوئے تھے جو اپنا گنا شوگر ملوں کو فروخت کرنے کے لیے مارے مارے گھوم رہے ہیں۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ بھٹو دور میں کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی کسان نے اس لیے خودسوزی کی کوشش کی ہو کہ اس کی فصل کوئی نہیں خرید رہا اور اگر خرید بھی رہا ہے تو من مانے ریٹ پر اور وہ بھی ادھار میں۔کیا یہ ممکن تھا کہ بھٹو کی کوئی اپنی شوگر مل ہوتی اور اس کے دروازے کسانوں پر بند ہو جاتے ؟
ارے یاد آیا۔میں نے دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں راجن پور کے علاقے روجھان مزاری میں بی بی سی کے لیے سیلاب کی رپورٹنگ کے دوران ایک کاشتکار دیکھا جو اطمینان سے ہائی وے کے ٹرک ہوٹل پر بچھے ہماچے ( ایک بہت بڑا پلنگ جس پر آٹھ دس افراد آرام سے بیٹھ سکتے ہیں ) پر بیٹھا کیچڑ زدہ پاؤں ہلاتے ہوئے حقہ گڑ گڑا رہا تھا۔سفر کی تھکن سے چور میں بھی کچھ دیر کے لیے اس کسان کے برابر جا بیٹھا۔ حال احوال ہوا۔
میں نے پوچھا آپ کہاں رہتے ہو ؟ اس نے پانی میں گھرے ایک کچے پکے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا پانچ دن پہلے میں وہاں رہتا تھا۔ اب ایک ہفتے سے اسی ہماچے پر رہتا ہوں۔وہ پھر حقہ گڑ گڑانے لگا۔اور پھر اچانک مجھ سے پوچھا، سائیں آپ نے بھٹو کا نام سنا ہے؟ میں نے گڑبڑاتے ہوئے کہا کیوں نہیں کیوں نہیں۔اس کا نام کس نے نہیں سنا۔ کہنے لگا بھٹو کے بعد سیلاب میں وہ مزہ نہیں رہا۔ میں نے کہا مطلب ؟کہنے لگا مطلب یہ کہ جب بھی سیلاب آتا۔اس کے بعد کوئی آئے نہ آئے بھٹو صاحب کا سفید ہیلی کاپٹر ضرور اترتا تھا۔وہ گھٹنے گھٹنے پانی میں اترتا اور ایک ایک کے پسینے والے کالر کو زور سے کھینچتا۔گھبرانا نہیں پیچھے امداد آ رہی ہے۔اور پھر ہمیں اتنا راشن ملتا کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔اب بھی ہیلی کاپٹر آتے ہیں مگر اوپر سے گذر جاتے ہیں۔آپ کو پتہ ہے کہ وہ سفید ہیلی کاپٹر ابھی کہاں ہوگا ؟ پھر خود ہی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ابھی وہ تو کسی کباڑی کے پاس ہی ہوگا۔
مجھے نہیں معلوم کہ یہ قصہ اس وقت کیوں یاد آگیا؟ اگر بے محل لگے تو معافی چاہتا ہوں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ