میں گزشتہ تیرہ دنوں سے ہسپتال کے بیڈ پرپڑاہوں ۔یہاں مجھے ٹھنڈ لگنے سے ہونے والے نمونیہ کی وجہ سے لایاگیاتھالیکن یہاں آکرپتہ چلا کہ میرے گردے بھی کام نہیں کررہے اورخون میں انفیکشن کی وجہ سے میں ہوش اوربیہوشی کے درمیان ٹھیک سے بات نہیں کرپارہا،لیکن منوبھائی بضدہے کہ میں اپنی حالت زاربتانے کی بجائے اپنی اگلی تحریرلکھوں ۔میں کہنا چاہتاہوں کہ ”جب مجھے یہاں لایاگیاتومیرے خون میں انفیکشن بہت بڑھ چکاتھا،چنانچہ مجھے پے درپے ڈائیلسیز کے عمل سے گزاراگیاجس سے انفیکشن توکسی حد تک کم ہوگیااورمونیٹرپرمیری آکسیجن انٹیک کافی بہتر ہے لیکن ہسپتال کے ڈاکٹروں کی تمام ترمحنت کے باوجود ابھی پھیپھڑوں کے انفیکشن میں کوئی کمی نہیں آئی ۔لیکن منوبھائی کہتاہے کہ ”معاشرے کاانفیکشن اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اورڈائیلسیز کاکوئی بھی عمل معاشرے کے گندے خون کو صاف کرنے سے قاصرہے۔ایک تمھارے قلم سے کچھ لوگوں کی امیدبندھی ہے چنانچہ اٹھو اورلکھو“
کیسے اٹھوں؟گزشتہ بیس بائیس دنوں میں لگاتار لیٹنے کے باعث میری کمر پربیڈسورزہوچکے ہیں جن سے رسنے والے خون میں کوئی کمی نہیں آرہی “
منوبھائی میری بات کاٹ دیتاہے ”ان باتوں کو سننے کابھی وقت نہیں ہے میرے پاس ۔ابھی میری سوانح حیات کے کئی چیپٹرز لکھنے باقی ہیں۔ابھی توصادقین پربات ہوناہے،ابھی تونصرت چوہدری ،عابدعلی شاہ اورنازی آپاکاذکر رہتاہے۔ابھی تو فیض صاحب اورقاسمی صاحب کاذکرہوناہے،احمدفرازرہتے ہیں ،منیر نیازی ،احمد مشتاق ،ظفراقبال اورامجداسلام امجد کی بات ہوناہے ۔ظہیربابر ،انتظارحسین،احمد بشیر ،بشریٰ انصاری ،خدیجہ مستور،حاجرہ مسرور اورجنگ اخبار کے بانی میرخلیل الرحمن اوران کی بیگم جہاں آرا صاحبہ کی کہانی باقی ہے ۔ابھی وارث میر ،حامدمیر ،سہیل احمد ،منیراحمد شیخ ،سلطان راہی ،مصطفی قریشی اورشبنم کے واقعات قلم بند ہوناہیں۔اسلم اظہر ،آغاناصر ،فضل کمال ،یاورحیات اورروحی بانو لکھناباقی ہے۔کچھ باتیں عباس اطہر ،شفقت تنویر مرزا،جاویدشاہین اورکشور ناہید کی بھی ایسی ہیں جوشاید کسی کوبھی یادنہ ہوں اوربہت کچھ بھٹو صاحب ،بینظیر بھٹو اورشریف براداران کاایسابھی ہے جوشاید ان کے بچوں اوراس ملک کے آنے والی نسلوں کے کام آسکے،اور“۔
اس بار میں اپنی تمام ترتکلیف اوردماغ پرچھائی غنودگی کے باوجود پوری طاقت جمع کرکے منوبھائی کی بات کاٹ دیتاہوں ”یہاں کے علم اور اوریہاں کے عالم کی بے توقیری معاشرے میں ایسی پھیلی ہے کہ اس نسل کو پتہ بھی نہیں ہے کہ منوبھائی کون ہے اورکیاچاہتاہے؟اورآنے والی نسلوں کوبھی ان کے استعماری آقا اس طرح سے بریکنگ نیوز میں الجھادیں گے ،انہیں ریل کی پٹڑی پرپڑے آٹھویں جماعت کے طالب علم منظوراحمد شاہ کے بکھرے ہوئے جسم یابادشاہی مسجد کے مینار سے کودکرجان دینے والی برقع پوش خاتون کہ جس نے تین رنگوں کاپراندہ باندھ رکھاتھا۔ٹی بی کی آخری سٹیج سے لڑتی ہوئی پروین کے بارے میں لکھنے والے منوبھائی سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیںہوگی “اورپھر میں منوبھائی کوانہی کی لکھی ہوئی کہاوت سناتاہوں ”کہتے ہیںایک بار ایک پٹواری کی چہیتی گھوڑی مرگئی ۔گھوڑی کاافسوس کرنے کےلئے دوردراز سے لوگ آئے۔سات روز تک صفیں بچھی رہیں ،پھرایک روز پٹواری فوت ہوگیامگرگھوڑی کی فوتیدگی پرافسوس کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی ماتم پرسی کونہ آیاکیونکہ بدقسمتی سے اسی روز تحصیلدار کی گائے مرگئی تھی“۔
جواب میں منوبھائی صرف اتناکہتاہے کہ ”تم موت کے انتظار میں بے ہوش لیٹے رہناچاہتے ہوتو لیٹے رہو،میں نہ خودلیٹ سکتاہوںاورنہ اپنی سوچوں کواس بسترپرمحدود کرسکتاہوںکیونکہ آج کی نسل یاآنے والی نسلوں کومنوبھائی سے دلچسپی ہونہ ہومنوبھائی کوان سے دلچسپی ہے اورہمیشہ رہے گی “۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ ۔۔ تین جنوری 2018 ء )