آپ پی ٹی آئی کی ’فائنل کال‘ کے انجام کا بھلے مذاق اڑا لیں۔ گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی بڑھکوں اور پھر کارکنوں کو چھوڑ کے غائب ہونے پر کچھ دن اور پھبتیاں کس لیں۔ پارٹی کی کنفیوز قیادت اور عمران خان کی طبعی جذباتیت پر مزید طنز کر لیں۔
ان ہزاروں بھولے لوگوں کا ٹھٹھہ بھی کرلیں جنہیں کوئی بھی بازیگر خواب دِکھا کے اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔ آپ خود کو فی الحال ناقابلِ تسخیر بھی سمجھ لیں۔ مگر کیا اس سے بنیادی مسئلہ حل ہو جائے گا؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اتنے برس گزر جانے اور پچھلے دو سال سے اس قدر ریاستی دباؤ سہنے کے باوجود پی ٹی آئی میں سیاسی بلوغت کی کمی بدستور ہے۔ مگر پھر آپ کون سے رستم نکلے جو آٹھ فروری سے اب تک پتہ بھی کھڑک جائے تو ہوائیاں اُڑنے لگتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندر اِس وقت قیادت کا جو فقدان ہے، اس کے ہوتے ہوئے اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے مخصوص نشستیں دے بھی دی جاتیں تو آخر کتنی قیامت آ جاتی؟ آپ کو کس خوف نے 26ویں آئینی ترمیم ریکارڈ مدت میں منظور کرنے پر مجبور کیا یا اس سے پہلے الیکشن ایکٹ 2017 میں قلعہ بند ترامیم پر راتوں رات اُکسایا؟ یا مقدمہ در مقدمہ ایک ایک کو کیوں رسی در رسی کسنا پڑ رہا ہے؟
آپ کو تو قاضی فائز عیسیٰ سے بھی خطرہ تھا کہ عدلیہ کے سربراہ بن کر نہ جانے کیا کریں گے۔ لہذا اُن کے خلاف پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دو تاکہ چیف جسٹس بننے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگر انہوں نے چیف جسٹس بن کے کون سی چولیں ہلا دیں؟ منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جاتے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو جاتا؟ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ جب ہاتھ میں ہتھوڑا ہو تو ہر چھوٹا بڑا مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔خیبر پختونخوا میں اس وقت وفاق کے تعینات کردہ چیف سیکریٹری کو وزیرِ اعلیٰ سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ 2014 کے آشیروادی دھرنے کو چھوڑ کے اب تک پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی جڑوں میں بیٹھنے کی جتنی بھی کوششیں کیں سب ناکام ثابت ہوئیں۔ اس بار ایسی کیا انٹیلیجینس رپورٹیں تھی جن کی روشنی میں آپ نے نہ صرف دارالحکومت بلکہ پورے پنجاب کو ’کنٹینرستان‘ بنا دیا۔ تین صوبوں کی پولیس منگوا لی۔ پشاور تا ملتان موٹرویز بند کر دیے۔ لاہور کی ازخود مکمل رضاکارانہ ناکہ بندی کر دی۔ ٹرین سروس معطل کر دی۔ آدھے ملک میں انٹرنیٹ سروس گڑبڑا دی۔
کیا وجہ ہے کہ آپ کو خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں کالعدم طالبان کی مسلسل کارروائیوں، ضلع کرم میں لگی آگ اور بلوچستان کی دن بہ دن پھیلتی بدامنی سے زیادہ ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ اور وی پی این کی بے راہ روی کی پریشانی ہے۔عمران خان باہر تھا تو بھی پریشانی تھی۔ اب اندر ہے تو بھی پریشانی ہے۔ رہ گیا تھا سندھ، تو اسے آپ نے چولستان کینال کا نیا جُھنجُھنا یہ کہہ کے پکڑا دیا کہ تُو کیوں سکون سے بیٹھا ہے۔
مانگے تانگے کی سرتوڑ کوششوں سے معیشت ذرا سی بہتر ہونے کے آثار نمایاں ہوئے تو اس کا جتنا منافع اگلے تین برس میں آنا تھا وہ آپ نے سٹرکیں بند کر کے، ای کامرس پر ہتھوڑا برسا کے اور گورنننس کی کنٹینرائزیشن کر کے ہفتے دو ہفتے میں ہی پیشگی خرچ کر ڈالا۔پھر بھی آپ کو اندھا بھروسہ ہے کہ بیرونِ ملک بیٹھے پاکستانی، بین الاقوامی کاروباری ادارے اور خلیج کے شیخ اپنا سرمایہ پاکستان میں لگانے کو بُری طرح بیتاب ہیں۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ پی آئی اے جیسا ہاتھی کوئی لینڈ گریبر تک بولی کی قیمت میں خریدنے کو تیار نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس پوری گیم سے ’عام آدمی‘ نامی مخلوق مکمل باہر ہے۔ اس کے ووٹ کی تو خیر کبھی بھی وقعت نہیں رہی۔ اب تو معیشت میں بھی اس کا حصہ ٹیکس اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عرصہ ہوا تعلیم، صحت اور روزگار اس کے لیے وہ ڈگڈگی بنا دیے گئے ہیں جو ہر قماش کا سیاستدان اسے بندر کی طرح نچانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
جو وسائل اس بدقسمت کی قسمت بدلنے کے لیے صرف ہونے تھے اُن کی چھینا جھپٹی کی گھمسان لڑائی اب مقتدر اشرافیہ کے درمیان ہو رہی ہے۔ مگر جانے اس وطن کی مٹی کیسی ڈھیٹ ہے کہ اتنی لپاڈکی کے باوجود خود غرض و خود پرست اشرافیہ کا بوجھ اٹھانے والے وسائل اگلے ہی چلے جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں اختیارات زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی ہوس، پارلیمنٹ، جمہوریت، گورننس، آئینی عہدے، عدلیہ، میڈیا حتیٰ کہ شو بزنس کو مطیع تر بنانے کی سرتوڑ کوششیں۔ فرض کریں آپ یہ سب فتح کر لیتے ہیں اور شاید آپ نے کر بھی لیا ہے۔ تو اب آپ اختیارات کا ہمالیہ بن کے اس پہاڑ کا کریں گے کیا؟
کوئی ایک مسئلہ بھی بخوبی حل ہو جائے گا؟ امن و امان کم ازکم اس جوگا ہو جائے گا کہ معیشت کا پہیہ چل پڑے؟ کیا آپ کی منشا کا سیاسی استحکام آ جائے گا؟ دشمنوں کو تو جانے دیجیے کیا دوست ممالک بھی آپ پر پہلے جیسا اعتماد کرنا سیکھ لیں گے؟ کچھ تو بتائیے کہ آپ فیصل آباد کا اختیاراتی گھنٹہ گھر بن کر ایسا کیا ہدف پا لیں گے یا پانا چاہتے ہیں جو آپ کے سوا کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔اس وقت مجھے وہ لاڈلا بچہ کیوں یاد آ رہا ہے جو ہر ہر کھلونا حاصل کرنے کے لیے اپنے پالن ہاروں کی زندگی عذاب کر دیتا ہے اور جب اس کے پاس سینکڑوں من پسند کھلونے جمع ہو جاتے ہیں تو پھر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اُن کا اب کرنا کیا ہے؟
(بشکریہ: بی بی سی اردو)