اب سے 276 برس پہلے کی رات ، بھٹ شاہ کی زمین پر بچھی ہوئی تھی اور آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اس جوگی بیراگی کو دیکھنے کے لیے زمین پر جھک گئے تھے جس کے لیے انسانوںمیں کوئی تفریق نہ تھی۔ اس کی شاعری کے کردار ہندو ، مسلمان اور بودھ سب ہی تھے۔ اس کے لیے وطن کے کانٹے سنبل و ریحان سے خوشتر تھے، جو ماروی سے کہتا تھا کہ خبردار اپنے وقار اور خود داری کی اوڑھنی کو سر سے نہ اتارنا۔ وہ شخص جو ملتان ، جونا گڑھ، جیسلمیر گھوم آیا تھا، 276برس پہلے کی اس رات راگ راگنی کے دریا میں تیرتا تھا ، وجدکا عالم تھا۔ راگ ختم ہوا اور اس کے ساتھ ہی سندھ کے اس عظیم شاعرکی سانس کی راگنی ختم ہوئی۔ وہ شخص دنیا سے اٹھ گیا جس کے در پر آج ہم ماتھا ٹیکتے ہیں۔
میں محکمہ اطلاعات سندھ کی اس پہلی کتاب کو دیکھتی ہوں جسے میرے عزیز بزرگ ڈاکٹرعارف شاہ جیلانی نے مرتب کیا تھا اور جس میں عبدالستار پیرزادو، ڈاکٹر داؤدپوتو، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، اللہ بخش عقیلی اور آشکار حسین خواجہ ایسے نابغۂ روزگار افراد کے خراج عقیدت ہیں۔ اسی کتاب میں رشید اختر ندوی لکھتے ہیں کہ سندھی اپنے یہاں کے اسکندروں اور داراؤں کو بھول گئے لیکن شاہ عبداللطیف کو نہ بھولے اور آج تک وہ اس کے کلام کے دیوانے ہیں۔
اس وقت شیخ ایاز یاد آرہے ہیں جنھوںنے شاہ لطیف کے بارے میں لکھا کہ ’’وہ حسن کا پیغمبر اور محبت کا پیامبر تھا۔ رسوم و قیود سے آزاد اور رشتہ وپیوند سے بے نیاز تھا۔ یہی اس کا نشانِ عظمت ہے اور یہی اس کی شان یکتائی کہ وہ انسان اول تھا اور انسان آخر۔‘‘
موینجو دڑو کی گمشدہ موسیقی شاہ کے لفظوں میں سانس لیتی ہے۔ درمیان میں ہزاروں برس کا فاصلہ ہے۔ اس کے باوجود ریگستان ہوں یا نخلستان، شاہ کی شاعری کے کردار انسانیت کے ساز پر گیت گاتے ہیں۔
جوگیوں اور بنجاروں کے ساتھ گھوم کر اپنی دھرتی کے چپے چپے کو دیکھا ‘ اس کے بالوں اور اس کے پیروں کو سندھ کی مٹی نے اپنے رنگ میں رنگ دیا اور وہ اس سر زمین کے ان لوگوں کی آواز بن گیا جو زور آوروں کے سامنے قالین کی طرح بچھنے پر مجبور تھے ، جنھیں حملہ آوروں کے گھوڑوں نے بار بار روندا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کے لفظوں کی کونجیں اڑان بھرتی ہیں اور جانی انجانی بستیوں میں رہنے والوں کے سینوں میں بسیرا کرتی ہیں۔
اس کی شاعری سندھ دھرتی کا سنگھار ہے اور جس کی داستانوں میں سانس لیتی ہوئی سسی، نوری، ماروی، مومل، سوہنی، لِیلا اور ہیر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ وہ سندھ جہاں عورت صدیوں سے جور اور جبر کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، وہاں کی دم گھونٹ دینے والی فضا میں سندھ کی یہ سات رانیاں ہیں جنھیں شاہ نے لوک کہانیوں سے اٹھایا اور عالمی ادب میں عشق ، پیمان وفا ، ذہانت اور جرأت کا استعارہ بنا دیا۔ یہ شاہ کی شاعری تھی جس نے سندھ کی عورت کے سینے میں بغاوت کا وہ شعلہ رکھ دیا جو ظالموں سے بجھائے نہیں بجھتا۔ دستِ قاتل کے سامنے سربلند رہنے کی ادا سندھ کی عورت نے شاہ کی شاعری میں جاری و ساری احتجاج اور انحراف سے سیکھی۔
مجھے قرۃ العین حیدر یاد آتی ہیں جنھوں نے 58 یا شاید 59 میں شاہ کی مزار پر حاضری دی تو شاہ لطیف کی بات کو دہراتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے کیسے کیسے لوگ چلے گئے زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو‘‘ وہ اس سفر میںلطیف کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ تب ہی انھوںنے لکھا کہ ’’راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گھر آئے۔ جاڑوں کا ساون، شاہ نے ’’ سُر سارنگ ‘‘ میں کہا ۔ ساون نیجھیل کو بھر دیا اور زمین سرسبز ہوگئی اور ایک جگہ کہا کہ ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں۔ بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول ، چین ، سمر قند ، روم ، قندھار، دلی ، دکن، گر نار ، جیسلمیر ، بیکا نیر ، امرکوٹ ، اللہ سندھ پر بھی بارش برسا کر اسے شاداب کر دے۔
شاہ نے جو سفرکیے ان میں دیکھا کہ جھیلوں اور جنگلوں میں تیتر بول رہے تھے۔ سارس، بگلے ، باز، طوطے، مور، قصبوں میں مغلوں اورکلہوڑوں کے عہد کے مکانات اور زرد دھوپ میں تنہا صحرا۔ شاہ نے کہا تھا کہ صحرا، جہاں پرندوں کا گزر نہیں وہاں جوگی اپنی آگ جلاتے ہیں اور جب وہ جوگی چلے گئے تو ان کی جگہ پر نہ تنکے ملے نہ پتھر اور راکھ اڑ گئی اورجوگی اپنے سنکھ پھونکتے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ کسی نے شاہ کی شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ معرفت کی اصطلاح میں ’’کچھَ‘‘ وہ سنہرا شہر ہے جہاں شہزادہ پنوں یعنی دیوتا رہتا ہے اور بھنبھورکے دولت مند دھوبی کی لڑکی سسی انسان کی روح ہے۔ سندھ کے پہاڑ اور دریا اور ریگستان سالک کی راہ کی تکالیف ہیں۔ شاہ نے کہا کہ اس سفر میں سالک کو ’’لا‘‘ کا خنجر اپنے ساتھ رکھنا چاہیے اور سسی نے غز الانِ خطا اور ہما کی طرح لا انتہا جستجوکا گُر سکھ لیا تھا۔
یہ جستجو ہمیں شاہ کی داستانوںمیں ان کی ہیروئنوں کی زندگیوں میں کہاں نہیں ملتی۔ یہ اسی جستجو کا شرارہ ہے جس کی لپک آج بھی لوگوں کو بے قرار رکھتی ہے۔ ’’ شاہ جو رسالو‘‘ کے شارحین اور مفسرین کی کمی نہیں۔ ان میں ٹی سورلے ہیں اور ڈی بوٹانی بھی۔ ایل ایچ اجوانی ہیں اور کے ایف مرزا بھی لیکن میرے خیال میں جس طرح شاہ کے کلام کی تفسیر سائیں جی ایم سید نے کی ہے ، وہ اس لیے نادر ہے کہ وہ شاہ کی شاعری کو آج کی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ انھوںنے ’’ شاہ جورسالو ‘‘ کے اشعارکو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ شاہ کے زمانے میں جدید سیاسی نظام موجود نہ تھا لیکن جس طرح لکڑی میں آگ ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب اس کے جلائے جانے کے اسباب پیدا ہوں، اسی طرح اُس وقت بھی سندھ میں آج کی طرح کا وہ طبقاتی نظام موجود تھا جس میں مفلس، نادار اور بے گھر و بے آسرا لوگ سانس لیتے تھے۔
اور اس روزکے منتظر تھے جب انقلاب برپا ہو اور ان کی زندگی کے صبح وشام بدل جائیں۔ سائیں سید نے ’’پیغام لطیف‘‘ میں کہا ہے کہ اگر ہم شاہ کی شاعری کا جائزہ جدید اصطلاحات کی روشنی میں لیں تو ہمیں اس میں نیشنلزم کی حمایت، جمہوریت کی طرف داری‘ سوشلزم کی طرف جھکاؤ، سرمایہ داری سے نفرت، آمریت اور فاشزم کی مخالفت نظرآتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پین اسلام ازم سے ان کا دور دورکا واسطہ نہ تھا۔ شاہ نے اپنے اشعار میں ہمیشہ وطن کی آزادی اور خوشحالی کے لیے بارش کی دعائیں مانگیں۔ یہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے غیر منصفانہ سماج میں انقلاب برپا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ تب ہی ’’سرسا رنگ‘‘ میں وہ بار بار ’’ساون‘‘ کی دعا کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اے خدا اس ملک کے پیاسوں پر رحم کر ، ان کی خیر گیری کر اور اتنی بارش برسا کہ عالم جل تھل ہو جائے۔ یہ دکھیارا دیس سبزے کا دوشالہ اوڑھ لے اور اناج سے مالا مال ہو اور اس کے غریبوں کوسُکھ کی دوگھڑیاں نصیب ہوں۔
شاہ کی وطن پرستی کے کلام میں ہر جگہ سانس لیتی ہے۔ اس کو اجاگر کرتے ہوئے سائیں سید نے لکھا کہ وہ دیس کے جھونپڑوں، گھروندوں کو ، ریگستانوں اور صحراؤں کو ، کھّدر اورگدڑیوں کو غیروں کی کوٹھیوں اور محلوں سے، سبزہ زاروں اور باغات سے اور زربفت وکمخواب سے ہزار درجہ زیادہ عزیزرکھتے تھے۔ اور اپنوں کی بدمزہ اور بدرنگ غذاؤں کو غیروں کے لذیذ خوش رنگ کھانوں سے افضل تصورکرتے تھے۔ وہ یہاں کے لوگوں کو پسماندہ، کمزور اور غلام دیکھ کر دل شکستہ نہیں ہوتے بلکہ انھیں ان کی نیم بدوی تہذیب کو حقارت کے بجائے فخرکی نگاہ سے دیکھنا سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حالات ہمیشہ نہ رہیں گے وہ دن ضرور آئے گا جب تمہیںآزادی اورفرخندہ حالی نصیب ہوگی۔ اسی لیے جب تک تم پسماندہ ہو، غلام ہو ، اپنی روایات کو زندہ رکھنا کہ یہ تمہارے قبیلے کی اہم خصوصیت ہے۔ یہ وہ قبیلہ ہے جو مصائب وآلام کی شدت میں بھی اپنے روایتی قومی تفاخر کو برقرار رکھتاہے۔
شاہ کے ’’سرُسسی‘‘ کو پڑھیے تو اس کے ہر لفظ سے اضطراب کی آنچ آتی ہے۔ ’’اب کیا شہر بھنبھور میں رہنا، ویراں ہے شہر بھنبھور، سارے شہر بھنبھور میں میرا کوئی نہیں غم خوار‘‘ جیسے مصرعے لہو میں بھنور ڈالتے ہیں۔ شاہ کی شاعری کے یہی چہل چراغ ہمیں آج کے انسان دشمن اندھیروں میں اپنا راستہ دکھاتے ہیں۔ شاہ کا سارا کلام سندھ کی محبت ، آزادی ، ترقی اور خود مختاری کے جذبات کا ترجمان ہے۔ ان کی سات رانیوں کاعطر بے نظیر تھی جسے بے دردی سے سڑکوں پر لٹا دیا گیا۔
شاہ صاحب کی زندگی بہ ظاہر صوفی شاہ عنایت کی طرح حکومت وقت کے خلاف عملی جدوجہد میں نہیں گزری لیکن صوفی شاہ عنایت کے افکاروخیالات کا ان پرگہرا اثر پڑا۔ شاہ عنایت جب حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں اور علمائے سوکے درباری فتوؤں کی تلوار سے ذبح کیے گئے، ان کے شریک سفر دہکتے ہوئے تندوروں میں جھونک دیے گئے تو یہ ایک ایسا عظیم سانحہ تھا جس نے بے شمار لوگوں کو مضطرب کر دیا۔ شاہ لطیف کی عمر اس وقت 28 برس تھی۔ صوفی عنایت پر ہونے والا جوروستم اور ان کی شہادت ، نوجوان شاہ لطیف کے سینے میں ٹوٹا ہوا تیر بن گئی۔ انھوں نے بہ آواز بلند یہ نعرہ مارا کہ سارا ملک ہوا منصور تم کس کس کو سولی چڑھاؤ گے۔ جب وطن سے سرشار شاہ لطیف کا یہ کلام صدیوں سے سندھ کو وہ روشن راستہ دکھا رہا ہے جس پر سفرکرکے قومیں بلندیوں تک پہنچتی ہیں۔۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)