ان کی سرخ و سفید رنگت زرد پڑگئی ہے اور ہنستا مسکراتا چہرہ کملا گیا ہے۔ ان سے پہلی غائبانہ ملاقات 1996 یا شاید 1997 میں ہوئی، لیکن اس غائبانہ ملاقات کے تذکرے کے لیے مجھے انیسویں صدی میں جھانک کر دیکھنا ہوگا۔ 1824 کا زمانہ تھا جب لکھنو میں ایک کتاب ’’فسانہ عجائب‘‘ لکھی گئی۔ 1843 میں وہ پہلی مرتبہ شایع ہوئی تو ایک تہلکہ مچ گیا۔ میرامن کی ’’باغ و بہار‘‘ غالب کی شاعری اور خطوط اور رتن ناتھ سرشار کے ’’فسانہ آزاد‘‘ کی طرح ’’فسانہ عجائب‘‘ کی اشاعت بھی انیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک بڑا واقعہ سمجھی جاتی ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کے لگ بھگ ڈیڑھ صدی بعد لاہور کی ایک طالبہ کو اس کے استاد ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ہدایت کی کہ بی بی ایم اے کا اپنا تھیسس تم رجب علی بیگ سرور پر لکھو۔ طالبہ نے ڈاکٹر عبادت کی ہدایت گرہ میں باندھی، ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں اس نے لکھنو اور رجب علی بیگ سرور پر درجنوں کتابیں اور مخطوطے پڑھے اور پھر اپنا مقالہ ’رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور‘‘ لکھا اور اپنے استاد محترم کی خدمت میں پیش کردیا۔ 1985 میں اس لڑکی کا مقالہ لاہور کے ایک پبلشر نے کتابی صورت میں شایع کیا، کچھ لوگوں تک وہ کتاب پہنچی، کچھ تک نہ پہنچی۔ میں نے کراچی میں کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان سے وہ خریدی، پڑھی اور اپنے کئی دوستوں سے اس کا تذکرہ کیا، کتاب کی داد دی۔ افسوس کا اظہار کیا کہ خدا جانے یہ لڑکی کہاں گئی اور بعد میں اس نے کیا کچھ لکھا۔
ان ہی دنوں لاہور جانا ہوا، ڈاکٹر آغا سہیل کی خدمت میں حاضری دی، لڑکی نے اپنے دیباچے میں آغا بھائی کا حوالہ بہت محبت سے دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہو نہ ہو، آغا بھائی ضرور جانتے ہوں گے کہ وہ لڑکی اب کہاں ہے۔ ان سے دریافت کیا تو وہ بہت پراسرار انداز میں مسکرائے پھر کہنے لگے ’’ تمہیں واقعی نہیں معلوم؟‘‘ ’’اجی معلوم ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتی۔‘‘ میں نے الجھ کر کہا۔ ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی شریک حیات کی لکھی ہوئی ہے، کتاب کے فلیپ پر یا کتاب کے اندر کہیں بھی ان کا مکمل نام نہیں لکھا تھا، اس لیے مجھے یہ گمان کیوں گزرتا۔
2000 میں ان سے روبرو پہلی ملاقات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی جب شریف برادران کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی سننے اور دیکھنے کے لیے میں سندھ ہائی کورٹ پہنچی تھی۔ اقتدار کی چھترچھایا ختم ہوجائے اور غداری کا طوق گلے میں ہو تو ہمارے یہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگ استقامت سے کھڑے رہیں اور اپنے اس دوست کا ساتھ دیں جس کا ستارہ گردش میں ہے۔ ماجد سلطان، میاں نوازشریف کے بچپن کے دوست تھے اور بدترین دنوں میں بھی انھوں نے دوستی نباہی۔ بیگم کلثوم جب بھی کراچی آئیں، ان ہی کے گھر ٹھہریں۔ ماجد سلطان کے گھر پر ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں سیاسی صورتحال، ذاتی معاملات اور تاریخی واقعات سب ہی زیر بحث آئے۔ ان ملاقاتوں نے مجھے یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ وہ ایک سابق وزیراعظم کی ’’بیگم‘‘ سے کہیں زیادہ ایک ادب دوست، ادیب نواز، شائستہ اور نستعلیق خاتون ہیں۔ تاریخ کے بارے میں ان کی معاملات وسیع اور سیاسی معلومات کے بارے میں ان کا ذہن واضح ہے۔
2000 میں کلثوم نواز سیاسی جدوجہد کا آغاز چاہتی تھیں لیکن ان کی راہ میں سب سے زیادہ روڑے مسلم لیگ (ن) کے بعض سربرآوردہ رہنماؤں نے اٹکائے۔ ان کے ہر جلسے اور ہر بیان کو اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ایک وفاپرست خاتون خانہ کی آہ وزاری قرار دیا گیا۔ 8 جولائی 2000 کو جس طرح انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا، اس پر بعض ’مسلم لیگی رہنما‘ اتنے مشتعل ہوئے کہ انھیں مسلم لیگ (ن) کی اس بنیادی رکنیت سے خارج کرنے کی بات کی گئی جو چند دنوں پہلے کلثوم نواز کو دی گئی تھی۔ مسلم لیگ کے ’’جید رہنما‘‘ اس بات پر متفق تھے کہ ان لوگوں میں فوجی حکومت کا مقابلہ کرنے اور کسی قسم کی تحریک چلانے کی سکت نہیں، ان میں سے اکثر کے خیال میں ’’نواز شریف‘‘ ایک بھاری بوجھ ہیں جسے اگر فوراً اتار پھینکا جائے تو ان لوگوں کے اقتدار کی کشتی ایک بار پھر آمریت کے سمندر میں رواں دواں ہوسکتی ہے اور وہ ’’جمہوریت کی بحالی‘‘ کے دعویدار ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف کلثوم نواز یہ سمجھتی تھیں کہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت سے براہ راست ٹکر لیے بغیر نہ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوسکتی ہے اور نہ ان کے قیدی شوہر کو انصاف مل سکتا ہے۔
مسلم لیگ کے وہ رہنما جو کل اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح ان کی بیگمات، بڑی بیگم کی نظر میں آجائیں، ان میں سے بہت سے 2000 میں ان سے ملاقات کرنے یا ان کی بات سننے کے بھی روادار نہیں تھے۔ ایسے مسلم لیگی لیڈروں کی طوطا چشمی نے کلثوم نواز کو مجبور کیا کہ وہ مجلس تحفظ پاکستان کے پلیٹ فارم سے اپنی بات کہیں۔ یہ سمجھنا خوش فہمی ہوگی کہ وہ بلوچستان اور تھر کے قحط زدگان کے لیے جس کارواں کو لے کر مردان جانا چاہتی تھیں، وہ محض خدمت خلق کا جذبہ تھا۔ آمریت کا دور دورہ ہو تو پھر سیاست اسی طور کی جاتی ہے۔ کلثوم نواز کو داد ملنی چاہیے کہ انھوں نے چند دنوں کے اندر اندر اپنی پہل کاریوں سے پاکستان کی سیاست اور بین الاقوامی میڈیا میں وہ جگہ بنالی جس کے لیے سیاستدانوں کو ایک عمر صرف کرنی پڑتی ہے۔ یہ درست ہے کہ فوجی حکومت نے اس کارواں کو نکلنے نہیں دیا جس کا اعلان کلثوم نواز نے کیا تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ بات درست ہے کہ کلثوم نواز اس غیر سیاسی کارواں سے جو سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھیں، اس میں پوری طرح کامیاب رہیں۔
اس زمانے میں کلثوم نواز یہ بات اصرار سے کہتی تھیں کہ حکومت ان سے خوفزدہ ہے اسی لیے وہ انھیں قحط زدگان کی امداد اکٹھا کرنے کی مہم پر نکلنے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ 8 جولائی 2000 کو ان کے اہل خانہ، مسلم لیگ کے ہمدردوں اور خود کلثوم نواز کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کا یہ موقف درست ثابت ہوگیا۔ اس کارواں کو جبر اور تشدد کے ذریعے روک کر فوجی حکومت نے ساری دنیا کو یہ بتادیا کہ اسے اس کارواں میں عوامی شرکت کا خوف تھا، اسی لیے وہ اس کے نکلنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔ اس کارواں کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے جس بدحواسی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے کلثوم نواز خودبخود عالمی ذرایع ابلاغ کا مرکز بن گئیں۔ کرین سے اٹھائی جانے والی گاڑی میں دس گھنٹے تک بند کلثوم نواز کی موبائل فون پر بی بی سی کے نمایندے سے گفتگو جب ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تو ان چند جملوں نے کلثوم نواز کی ہمت اور استقامت کی داد ساری دنیا سے لے لی اور وہ ایک جرأت مند سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئیں۔
8 جولائی کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو کچھ ہوا، اس سے کلثوم نواز نے دہرا فائدہ حاصل کیا، ایک طرف وہ فوجی حکومت کی سبکی کا سبب بنیں دوسری طرف مسلم لیگ (ن)کے وہ ’’رہنما‘‘ جن میں سے کچھ فوجی حکومت کے کھلے ہوئے حامی تھے اور کچھ درپردہ حکومت کے ساتھ تھے، ان کی سیاسی حیثیت کو کلثوم نواز کی جمہوری جدوجہد نے نقصان پہنچایا۔8 جولائی کو انھوں نے ریاستی جبر کا جس ہمت سے سامنا کیا، جس طرح وہ ماڈل ٹاؤن کے گھر سے رات کی تاریکی میں نکل جانے میں کامیاب ہوئیں اور پھر ان کی گاڑی جس حال میں گھسیٹ کر اور کرین سے اٹھا کر لے جائی گئی، جس سے باہر نکلنے سے انھوں نے انکار کردیا اور اس میں دس گھنٹے محصور رہ کر ذرایع ابلاغ کے سامنے مشرف حکومت کے خلاف اپنے لہجے میں کوئی لچک نہیں آنے دی، اس سے عوام کو یہی پیغام ملا کہ وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کی مہم چلانے کی بہ خوبی اہلیت رکھتی ہیں۔
ان سے آخری ملاقات 21 جولائی 2007 کو لندن میں اس وقت ہوئی جب میں جمہوریت کی بحالی کے لیے میاں صاحب کی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئی تھی۔ اس روز بیگم کلثوم نواز نے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔ میاں صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان کے آفس آجاؤں، وہاں سے کیپٹن (ر) صفدر مجھے ان کے گھر پہنچادیں گے۔
اس آخری ملاقات میں کلثوم نواز سے سیاسی سے زیادہ ادبی باتیں ہوئیں۔ وہ قرۃ العین حیدر کی لاہور آمد اور ان سے ملاقات کا ذکر کرتی رہیں۔ مریم بھی اس ملاقات میں موجود تھیں اور جب میں نے ان سے شکایت کی کہ انھوں نے سیاست کیوں ترک کردی تو وہ مسکرا کر خاموش رہیں۔ وہ بات آئی گئی ہوگئی۔ میاں صاحب دوبارہ اقتدار میں آئے تب بھی کلثوم ’خاتون خانہ‘ رہیں، پھر ان کی بیماری کی خبریں آنے لگیں اور اب وہ بہت نڈھال لیکن وہ بہادر ہیں، مجھے یقین ہے کہ یہ جنگ بھی جم کر لڑیں گی۔ آج مریم، میاں صاحب کے شانہ بہ شانہ ہیں اور جمہوری جدوجہد میں ان کے لیے طاقت کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ جمہوری جدوجہد میں کامیابی کے بعد مریم اپنا سیاسی سفر ضرور جاری رکھیں گی اور میاں صاحب انھیں روک نہیں پائیں گے۔ کیونکہ مریم ان کی بیٹی ہیں اور بیٹیاں باپ سے وہ کام بھی کرا لیتی ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتے۔
Apr 25, 2018
بشکریہ ایکسپریس
فیس بک کمینٹ