یاد کی ندی میں ایک سفید و سیاہ تصویر تیرتی چلی جاتی ہے۔ یہ 1959ء کی بات ہے جب میں نے اس تصویر کو پہلی مرتبہ دیکھا۔ اس پر لائل پور کالج فار ویمن لکھا ہوا تھا اور اس کے نیچے 1955ء کا سنہ درج تھا۔
تصویر میں فردوس حمرا نظر آ رہی ہیں اور تقریری مقابلے میں جیتی ہوئی ٹرافی۔ کالج کی امریکی پرنسپل مس جین ہل اپنی طالبات کی فتح پر مسکرا رہی ہیں۔ ان کے ساتھ ہی شوکت فرخ ہیں جو صحافت میں آئیں تو شین فرخ کے نام سے پہچانی گئیں۔ فردوس حمرا نے مجھے کچھ دنوں پڑھایا اور اب 60 برس سے وہ میرے لیے حمرا آپا ہیں۔ ان کی والدہ اور خالائیں رابعہ پنہاں، آمنہ عفت، بلقیس جمال، میمونہ غزال 30ء اور 40ء کی دہائی میں مشہور تھیں، رسائل میں شائع ہوتی تھیں، آل انڈیا ریڈیو سے مشاعر ے پڑھتی تھیں، حمرا آپا نے افسانے لکھے، بہت سے ترجمے کیے۔
ادھر شین فرخ اور میں 1967ء میں ’’اخبار خواتین‘‘ کی مجلس ادارت میں یکجا ہوئے لیکن اس یکجائی کا بہت جلد خاتمہ ہو گیا۔ شین فرخ ’’ اخبار خواتین‘‘ سے ریٹائر ہوئیں۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’مدار‘‘ خاصے کی چیز ہے۔ علی امام ہمارے ایک بڑے آرٹسٹ تھے ۔ شین نے ’’مدار‘‘ میں ان کی زندگی لکھی اور حق ادا کر دیا۔ بات لائل پور کالج فار ویمن کی ہو رہی تھی، میں 2018ء کے فیصل آباد لٹریچر فیسٹیول کی چھتر چھایا میں سرینا ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی اور وہاں سے نکل کر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی گیسٹ ہاؤس میں جا پہنچی۔
یونیورسٹی میں بلائے جانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ عامر حسین جو 50ء کی دہائی میں کراچی سے لندن کوچ کر گئے تھے، وہاں انگریزوں کو انگریزی پڑھانے اور لکھنا سکھانے لگے۔ تین برس پہلے انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی، اب یونیورسٹی آف لندن کے سینئر ریسرچ فیلو ہیں اور زیادہ وقت لکھنے میں صرف کرتے ہیں۔ ان کی کتابوں پر کتابیں چلی آتی ہیں اور پاکستان میں انگریزی ادب کے طلبہ میں وہ بہت مقبول ہیں۔ چند ہفتوں پہلے ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’ہرمیٹج‘‘ آ چکا ہے۔
سال کی ابتداء میں میری انگریزی کہانیوں کے مجموعے ’’دی ہاؤس آف لونلی نیس‘‘ کی تقریب اجراء میں لندن سے آئے تھے۔ فیصل آباد یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف انگلش کے چئیر پرسن ڈاکٹر مظہر حیات نے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جب دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کیا اور عامر حسین کو تراجم پر گفتگو کے لیے دعوت دی تو عامر کا خیال تھا کہ اس میں ناچیز کو اس لیے بلانا چاہیے کہ میں نے بہت سی کہانیوں اور کئی کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے ہیں۔ میرے ساتھ شاہ بانو علوی بھی بلائی گئیں۔ وہ عامر کی انگریزی کتابوں کی پبلشر ہیں اور اب انھوں نے کہانیاں لکھنے اور انھیں ترجمہ کرنے کا شغل بھی اختیار کر لیا ہے۔
غرض ہم تینوں فیصل آباد میں موجود تھے اور ڈاکٹر مظہر حیات اور ان کی بیگم شاہدہ رائے کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے تھے۔
پہلے دن گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ نے میرے ساتھ جناح آڈیٹوریم میں ایک خصوصی نشست منعقد کی جس کا اہتمام محترمہ شاہدہ رائے نے کیا تھا جو اس ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ میری تصویروں سے مزین ہال میں سیکڑوں لڑکیاں جمع تھیں۔ انھیں میں نے ’’اردو ادب میں نسائی شعور‘‘ پر اپنا ایک مقالہ اور پھر اپنی ایک کہانی ’’سنو ثریا‘‘ سنائی۔ لڑکیوں نے نسائی شعور پر مقالہ اور کہانی دونوں ہی چیزیں بہت دلچسپی سے سنیں، اس کے بعد لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک سوال و جواب کا سیشن چلا۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ ان کے سوالوں کا معیار بلند تھا اور انھوں نے باتیں توجہ سے سنی تھیں۔ ان میں سے کئی ایسی تھیں جو میرے افسانے اور کالم پڑھ چکی تھیں، انھوں نے کئی سوال مختلف افسانوں اور تحریروں کے حوالے سے بھی کیے۔ تقریب کے اختتام پر مجھے ایک شیلڈ بھی عنایت کی گئی۔
انگلش ڈپارٹمنٹ نے جس بڑے پیمانے پر اس انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا، وہ یقینا داد و تحسین کا حقدار ہے ۔ یہ کمال ڈاکٹر مظہر حیات، ان کی بیگم شاہدہ رائے اور کانفرنس کو آرڈینیٹر رانا عبدالمنعم خان کا تھا۔
اس کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر طارق رحمن نے پاکستان کی نیشنل لینگوئج پالیسی پر ایک سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کی گفتگو اعداد و شمار سے مرصع تھی اور اسے سن کر احساس ہوتا تھا کہ انھوں نے کس جگر کاوی سے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ اُمید ہے کہ ان کا یہ مقالہ شائع ہو گا اور نیشنل لینگوئج پالیسی تیار کرنے والے ان کی ریسرچ کو سامنے رکھیں گے۔ قومی زبانوں کا معاملہ بہت نازک ہے، تدبر اور تحمل سے اسے بہ حسن و خوبی طے کیا جا سکتا ہے۔
اطہر طاہر اور ڈاکٹر سفیر اعوان کے لکچر معلومات افزا ہونے کے ساتھ ہی دلچسپ بھی تھے۔ انگریزی میں لکھنے والے پاکستانیوں کے ناول بہ طور خاص زیر بحث آئے۔ ہماری نامور لکھنے والی بپسی سدھوا، محسن حامد اور خالد حسینی کے ناول اور حضرت خواجہ غلام فرید کی شاعری کے معاملات پر روشنی ڈالی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ موضوعات بہت متنوع تھے اور ان پر اظہار خیال کرنے والوں نے بھی گھسے پٹے انداز نہیں اپنائے۔
آخری سیشن میں عامر حسین اور مجھ سے بہت سے سوالات ہوئے۔ میری کہانیوں سے ایسے ایسے نکتے اٹھائے گئے کہ مجھے جواب دینے میں لطف آتا رہا۔ عامر حسین اور شاہ بانو سے ترجمے کے رموز و نکات پوچھے گئے۔ شعبۂ انگریزی کے صدر ڈاکٹر مظہر حیات ہر مرحلے پر ان مباحث کے دوران موجود رہے اور دوسرے صاحب نظر پروفیسر بھی گفتگو میں شریک رہے۔
فیصل آباد سے انگریزی ادب اور لسانیات میں دلچسپی لینے والی لڑکیوں اور لڑکوں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر اندازہ ہوا کہ کراچی اور لاہور سے دور صاحبِ علم اور طالبانِ علم نے کیسی دھڑکتی ہوئی بستیاں بسائی ہیں۔ ادھر کئی برس سے گجرات یونیورسٹی کا بھی خاص طور سے ذکر ہوتا ہے۔ بہاولپور، ملتان، خیرپور وہ شہر ہیں جہاں کی یونیورسٹیوں میں متنوع موضوعات پر کانفرنسیں اور سیمینار ہوتے ہیں، ان میں پیش کیے جانے والے مقالے یکجا کر کے شائع کیے جاتے ہیں۔
اگر ہمارے مقتدرین تعلیمی بجٹ میں مناسب اضافہ کریں اور یونیورسٹیوں کو بھی ایک ایسا محاذ سمجھیں جس سے کٹر پن، جہل اور قدامت پرستی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے توکیا ہی اچھا ہو۔ نئے خیالات کی پرورش، روشن خیالی کے چراغوں کی روشنی کے ساتھ رواداری اور امن پسندی ہمارے سماج کے لیے وہ بنیادی پتھر ثابت ہو سکتے ہیں جن پر ہم ایک کثیر المشرب ملک کی عمارت تعمیر کریں ۔
ہمارے یہاں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ جنگوں کی تیاری اور اسلحے کے ڈھیر لگاکر ہم ملک کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تشدد انفرادی سطح پر ہو یا قومیں، قوموں کے سامنے صف آراء ہوں، یہ خودکشی کا راستہ ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں اس بات کا روشن اشارہ ہیں کہ علم کی مشعل ہمارے لوگوں کو ایک خوش آئند مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔ فیصل آباد یونیورسٹی کے انگلش ڈپارٹمنٹ میں جو مباحثے ہو رہے تھے، ان میں کہیں بھی تشدد، اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے، عورتوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری بنانے کی باتیں نہیں ہو رہی تھیں۔
کراچی یونیورسٹی کی طرح وہاں بھی تعلیم حاصل کرنے والیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ نظر آئی۔ شبِ رخصت گیت سنگیت کی محفل میں کھل کر حصہ لینے کے لیے لڑکوں کی بے قراری یہ بتا رہی تھی کہ انھیں گیت کی گت پر رقص کرنے دیجیے، ان کے قدم دہشتگردی کے کسی خونی منصوبے میں حصہ لینے کے لیے نہیں اٹھیں گے۔ ان کے وہ ہاتھ جو ’’لال مری پت رکھیو جھولے لالن‘‘ کی لہر پر تال دے رہے ہیں وہ کسی رائفل کی لبلبی کو نہیں دبائیں گے۔ فتوئوں کی آڑ میں ان کی آرزوؤں اور خواہشوں کا گلا نہ گھونٹیے، وہ ہمارے سماج کے ذمے دار اور خوش اطوار شہری ہوں گے۔
شاہدہ رائے مجھے لائل پور کا گھنٹہ گھر دکھانے لے گئیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے ان 8 گلیوں کا قصہ سناتی رہیں جو انگریز ما ہر تعمیرات نے یونین جیک پر بنی ہوئی دھاریوں کے حوالے سے بنائی تھیں ۔ لائل پور، فیصل آباد تو ہوگیا۔ گھنٹہ گھر چوک سے نکلنے والی 8 گلیاں اب بھی یونین جیک کا نقشہ بناتی ہیں۔ وہ اس بات پر افسردہ تھیں کہ شہر کی نہایت زرخیز زمینیں اب شہری ہو چکی ہیں۔ وہاں فصلیں نہیں لہلہاتیں، گھر تعمیر ہو چکے ہیں، مال بن چکے ہیں۔
شہر سلامت رہے، اس کے چاہنے والے اسے سنوارتے اور نکھارتے رہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مظہر حیات انگریزی ادب میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے قابل طلبہ تیار کرتے رہیں۔ شاہدہ رائے، حیات افزا اور دوسری پڑھانے والیاں لڑکیوں کو انگریزی ادب گھول کر پلاتی رہیں، اس کے ساتھ ہی رانا عبدالمنعم خان اتنے بڑے پیمانے پر کانفرنس کے انتظامات کا خوش اسلوبی سے اہتمام کرتے رہیں۔ مجھے بہت دنوں تک ان لوگوں کی میزبانی یاد رہے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ