زینب کا نام جب ہمارے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں گونج رہا تھا، اس کی تلاش میں لڑکے بالے ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ایک ایسے شہرکو تہس نہس کرتے، دکانوں اور مکانوں کوآگ لگاتے گھوم رہے تھے جو ان کا اپنا تھا، جس کی گلیوں میں وہ کھیلے تھے، جس کی چھتوں پر چڑھ کر انھوں نے پیچ لڑائے تھے، پتنگیں لوٹی تھیں لیکن انھیں کچھ یاد نہیں رہا تھا اور ان کا طیش ان کے اپنے شہر کو تہس نہس کر رہا تھا۔ ان دنوں سب ہی لکھ رہے تھے لیکن میں نے زینب کے لیے غمزدہ ہونے کے باوجود ایک حرف، ایک لفظ نہیں لکھا۔
میری نگاہوں میں ان بچیوں کے سائے لہراتے رہے جو آم اور املی کے پیڑوں کی شاخوں پر جھولتی اورکھلکھلا کر ہنستی تھیں، سنا ہے ان کے قہقہے، ان کے حلقوم میں گھٹ گئے ہیں۔ ایک بھولا بسرا گیت کانوں میں گونجتا رہا۔ ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو ۔۔ ہمیں تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے۔ یہ منظر، یہ گیت دل زدہ کرتے رہے اور اب جب کہ زینب اور دوسری 7 بچیوں کو بے حرمت اور مبینہ طور پر قتل کرنے والا مل گیا ہے، الم کی شدت کم نہیں ہوتی، بڑھ جاتی ہے۔ ہاں… یہ بچیاں خوبصورت تھیں، کھل کھلا کر ہنستی تھیں، ان کے چہروں پر رنگوں کی چھوٹ تھی، وہ سب کچل کرکچرے کے ڈھیر پر پھینک دی گئیں۔ ان میں سب سے آخری نام زینب کا ہے۔
بابا بلھے شاہ اور ملکہ ترنم مادام نور جہاں کا شہر قصور۔ اس شہر سے کیسی رومانی باتیں وابستہ ہیں لیکن گزرے ہوئے چند برسوں کے اندر اس شہر میں ایسے المناک واقعات ہوئے جن کی تفصیل میں جائیں تو یقین نہیں آتا۔یہاں کی مٹی سے بلھے شاہ ایسے بے مثال صوفی شاعر کا خمیر اٹھا اور یہیں سے نور جہاں کی من موہنی آواز کے چشمے پھوٹے۔ یوں تو پاکستان، ہندوستان یا بنگلہ دیش کے کس شہر، نگر میں چھوٹی بچیوں اور بچوں کے ساتھ بے حرمتی اور زیادتی کے واقعات نہیں ہوتے لیکن قصور تو ہر شہر پر بازی لے گیا۔
یہاں کے سیکڑوں چھوٹے لڑکے جنسی فلمیں فروخت کرنے والوں کا نشانہ بنے۔ یہ بچے اپنی معصومیت سے محروم ہوئے اور ان کی بے حرمتی چند بردہ فروشوں کے خزانوں میں اضافہ کرتی رہی۔ اب گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر ان کے قتل کے ناقابل یقین واقعات ہوئے۔ اب ہم سب جانتے ہیں کہ چند دن پہلے یہاں کی ایک سات سالہ بچی زینب جو اسکول سے آکر اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔
اس کے والدین عمرہ کرنے سعودی عرب گئے تھے اور بچی کو چچا کے گھر چھوڑ گئے تھے جہاں سے وہ روزانہ قرآن پڑھنے خالہ کے گھر جاتی تھی۔ زینب کی ڈھنڈیا پڑی، پولیس میں رپورٹ لکھوائی گئی لیکن اس کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ چوتھے دن زینب کی لاش گھر کے قریب کوڑے کے ڈھیر سے ملی ۔ سرد موسم نے اس کی لاش میں بگاڑ پیدا نہیں ہونے دیا تھا۔ پوسٹ مارٹم نے بتایا کہ قتل سے پہلے اس سات سالہ بچی کی کئی مرتبہ بے حرمتی کی گئی تھی۔
پوری سول سوسائٹی اس بچی کے لیے انصاف کی طلب گار ہوگئی۔ قاتل کو پکڑنے والے کے لیے بھاری رقم کا اعلان کیا گیا۔ ٹیلی وژن اور اخبارات پر وہ سی سی ٹی وی فوٹیج چلی جس میں زینب اپنے قاتل کا ہاتھ تھامے سڑک سے گزرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے بعد کئی اور سی سی ٹی وی فوٹیج چلیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ درست نہیں تھیں ۔ زینب اور اس سے پہلے جن لڑکیوں کو قتل کرکے ہلاک کیا گیا، ان سب کی جب فرانزک رپورٹیں آئیں تو معلوم ہوا کہ یہ کسی سیریل کلر کا، کام ہے، ان تمام گھناؤنے جرائم کے پیچھے کوئی ایک ہی شخص ہے۔
اس کے قاتل کا کھوج لگانے کے لیے سائنس جب مدد کو آئی تو معلوم ہوا کہ قاتل عمران علی تھا۔ اس نے دو برس کی مدت میں 8 بچیاں قتل کیں۔ پولیس اسے پکڑنے میں ناکام رہی اور ہر ناکامی عمران کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ وہ مذہبی اجتماعات میں شرکت کرتا رہا، جھوم جھوم کر نعتیں پڑھتا رہا اور منبر سے سنی جانے والی یہ باتیں اس کی سیاہ باطنی کو مطمئین کرتی رہیں کہ فلاں آیت پڑھنے سے سات ہزار یا ستر ہزار گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بھی سوچیے کہ یہ المناک واقعات ملک کے ہر صوبے میں کیوں رونما ہورہے ہیں؟
ان مظلوم بچوں کی فرانزک رپورٹ سامنے آئی تو اس کے بارے میں کچھ خرقہ پوش حضرات چیں بہ جبیں ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ یہ شرعی گواہی نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ فرانزک رپورٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اگر ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو ان کو دوش نہ دیجیے۔ سوال ان سے پوچھیے جو چاند کی مٹی پر نیل آمسٹرانگ کے قدموں کے نشان دیکھ کر اسے کسی امریکی فلم اسٹوڈیو میں بنائی جانے والی جعل سازی سے تعبیر کرتے ہیں۔سوال ان سے بھی کیجیے جو فرانزک رپورٹ آتے ہی لوگوں کی توجہ زینب کیس سے ہٹانے کے لیے ذرائع ابلاغ کے جدید ترین آلات سے لیس ہوکر اور اعلیٰ مغربی لباس پہن کر میدان میں اترے اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران علی جرائم کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کے لیے کام کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے گہرے روابط وفاق اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے کار پروازوں سے ہیں۔ وہ درجنوں غیر ملکی اکاؤنٹ رکھتا ہے جن میں اس نے کروڑوں یورو اور ڈالر جمع کررکھے ہیں۔ وہ بات جو ہمارے یہ عالی دماغ کھل کر نہ کہہ سکے، وہ یہ تھی کہ اس عمران علی کے ذریعے وفاق اور پنجاب حکومت کے بعض اہم افراد منی لانڈرنگ کراتے ہیں، یعنی معاملہ کرپشن کا ہے۔وہی کرپشن جو نواز شریف خاندان اور ان کے قریبی لوگوں کے سوا ملک کا کوئی دوسرا سیاستدان یا سول اور ملٹری بیوروکریسی کا فرد، یا کوئی صنعت کار نہیں کرتا۔ان عالی دماغ نے جھوٹ کی پوٹلی کھول کر اس سے نکلنے والی وہ دھول اڑائی کہ پہلے 24 گھنٹوں میں بڑے بڑوں کی عقل چرخ ہوگئی۔ ان کے اس سفید جھوٹ کا سب سے بڑا نقصان قصورکی ان بے قصور بچیوں کو ہوا جو ہم سے انصاف کی طالب ہیں۔ زینب کیس پسِ پشت چلا گیا اور پیش نظر میں ہر ٹیلی وژن اسکرین پر جعلی دستاویزات لہراتے ہوئے یہ عالی دماغ نظر آنے لگے جنھوں نے کسی ماہر قصہ گوکی طرح ایک ایسی داستان ساری دنیا کو سنائی کہ زینب اور قصور یا خیبر پختونخوا کی دوسری بچیوں کا سانحہ جاں کاہ، ان کی تگڑی تنخواہ، مراعات اور شہرت کی دلدل میں دھنس گیا۔ عالی جناب کے دل میں لمحے بھر کے لیے رحم کی رمق نہیں پیدا ہوئی اور انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ خدا نہ کردہ، وہ خود یا ان کا کوئی قریبی عزیز ایسے کسی سانحے کا شکار ہوجائے، تو وہ کیا محسوس کریں گے؟
زینب محفوظ نہ رہ سکی لیکن اس کے بستے سے وہ کاپی حفاظت سے رکھی ہوئی ملی ہے، جس میں اس نے ایک مضمون لکھا تھا اور اس میں اپنا تعارف یوں کرایا تھا کہ ’’میری عمر سات سال ہے۔ میں قصور میں رہتی ہوں اور پہلی جماعت میں پڑھتی ہوں۔ مجھے آم بہت پسند ہیں‘‘۔ وہ جسے آم بہت پسند تھے اب کبھی آم نہیں کھائے گی۔ اس کے کانوں میں کوئی لوری رس نہیں گھولے گی۔ وہ یہ نہیں سن سکے گی کہ دھیرے سے آجاری انکھین میں… نندیا آجاری آجا… پلکوں کی چھوٹی سی گلین میں… نندیا آجاری آجا… دھیرے سے آجا‘‘۔
اس کی ماں نے، دادی اور نانی نے اسے کتنی ہی کہانیاں سنائی ہوں گی۔ وہ کہانیاں جن میں کوئی بچی کسی دیو کے چنگل میں پھنس جائے تو کوئی پری یا نیک دل بزرگ آکر اسے آزادی دلاتے ہیں۔ ستم سہتے ہوئے اس نے سنی سنائی کہانیوں کے کرداروں کو بار بار تڑپ کر یاد کیا ہوگا لیکن نہ کوئی پری آئی اور نہ کسی نیک دل بزرگ نے اس ستم توڑنے والے کے چنگل سے رہائی دلائی۔ کہانیاں تو بس کہانیاں ہوتی ہیں۔چھوٹے بچوں اور بچیوں کو اپنے قریبی ہوس پرست عزیزوں یا محلے داروں کی خراب نیت سے آگاہ کرنے کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر ایک کورس شروع کرنے کی تجویز تھی لیکن یہ تجویز رد کردی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ فحاشی پھیلانے کی سازش ہے۔ اس بارے میں ہندوستانی اداکار عامرخان کا وہ پروگرام بھی زیرِ بحث آیا ہے جس میں وہ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو تصویروں اور چارٹ کے ذریعے یہ بتارہے ہیں کہ غلط لوگوں کو کس طرح قریب نہیں آنے دینا چاہیے تاکہ ان کی حفاظت کی جاسکے۔ہمارے یہاں زینب کے بارے میں کئی شاعرات اور شاعروں نے نظمیں لکھیں۔ ایک نظم ہمارے معتبر اور مقبول شاعر علی محمد فرشی نے زینب کی والدہ کے نام لکھی:
عورت کیا ہے؟… کیکر پر انگور کا دکھ ہے… دکھ کا کیا ہے؟… اپنے دل پر سہہ لینا ہے… سہنا کیا ہے؟… دوزخ میں جلتے رہنا ہے… دوزخ کیاہے؟… جیون سارا دوزخ ہے… جیون کیا ہے؟… جس کو عورت جنتی ہے… جب وہ جنت بنتی ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ