گجرات سے بزرگ دانشور حکیم چوہدری محمد اشرف روزنامہ 92نیوز کے مستقل قاری ہیں اور تقریباً میرا ہر کالم پڑھنے کے بعد مجھے فون کرتے ہیں، پچھلے دنوں گفتگو کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ معروف عشقیہ کردار سوہنی کا تعلق پنجاب کے گجرات سے نہیں بلکہ سرائیکی خطہ کے قصبہ گجرات ضلع مظفر گڑھ سے ہے، میں نے کہا ایسا نہیں ، انہوں نے اصرار فرمایا اور مجھے کتاب بھی بھیج دی۔ ان کی کتاب ’’ قانون ضدسے ہے وجود کائنات‘‘ کے صفحہ نمبر 27پر عبداللہ خالد صاحب اپنے تفصیلی اقتباس میں لکھتے ہیں۔ حکیم محمد اشرف کاتازہ ترین انکشاف یہ ہے ضلع گجرات کے لئے باعث اعزاز قصہ سوہنی مہینوال پنجابی کلاسیکل شاعری کا حصہ بن چکا ہے اور اس قصے کے حوالے سے گجرات کو سرزمین حسن و عشق بھی کہتے ہیں۔ یہ گجرات کی دو شیزہ کا حسن ہی تھا جس نے بلخ بخار اسے آنے والے شہزادے کو بھینس چرانے والا( مہینوال) بنا کے رکھ چھوڑا۔ اہل گجرات اور پنجابی ادب کے طالب علم اس قصہ عشق کو آنکھیں بند کئے گجرات سے منسوب تسلیم کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن حکیم محمد اشرف کا کہنا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ حکیم صاحب بسلسلہ ملازمت صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں رہے ہیں جب وہ شہداد پور( سندھ) میں مقیم تھے انہیں ایک دوست نے بتایا کہ یہاں قریب ہی سوہنی مہینوال کی قبریں ہیں جنہیں دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ حکیم صاحب کا ذوق تحقیق بیدار ہو اور وہ بھی قبریں دیکھنے چل پڑے۔ وہ حیران تھے کہ سوہنی مہینوال گجرات شہر کے نزدیگ دریائے چناب میں ڈوبے تھے۔ ان کی لاشیں دریائے چناب سے دریائے سندھ صحیح سالم پہنچ کے سینکڑوں میل دور شہداد پورے کے قریب کیسے پہنچ گئیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ یہاں لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہ لاشیں سوہنی مہینوال کی ہیں۔ یہ مسئلہ حل کرنا حکیم صاحب کے لئے چیلنج بن گیا۔ انہوں نے اس بارے میں اپنی چھان بین جاری رکھی۔ ایک مدت بعد انہیں اس بارے میں حیرت انگیز معلومات مل گئیں۔ حکیم صاحب کو پتہ چلا کہ ضلع مظفر گڑھ میں ایک قصبہ گجرات آباد ہے اس قصبے کی آدھی آبادی ظروف ساز کمہاروں پر مشتمل ہے جو ملتانی ظروف بنانے کے ماہر ہیں۔ اسی قصبے میں سوہنی نام کی دوشیزہ نے جنم لیا اور مغل شہزادہ عزت بیگ بلخ سے آتے ہوئے اس دوشیزہ کے حسن کا اسیر ہو گیا اور اپنا سب کچھ لٹا کے مہینوال بن کے رہ گیا۔ کچے گھڑے پے دریا سندھ عبور کرتے ہوئے جب سوہنی ڈوبنے لگی تو مہینوال اسے بچاتے ہوئے خود بھی جان ہار گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ نو دس گھنٹے کی دریائے مسافت طے کرنے کے بعد جب یہ لاشیں شہداد پور کے قریب پہنچیں تو لوگوں نے انہیں نکال لیا، بعدازاں قصبہ گجرات کے متلاشی وہاں پہنچے تو انہوں نے لاشوں کو پہچان لیا اور یوں سوہنی مہینوال کی قبریں بن گئیں۔ ضلع گجرات کے باسیوں کیلئے حکیم اشرف صاحب کی تحقیق خوش کن تو نہیں ہے کہ کلاسیکل پنچابی شاعری میں جوداستان عشق اس خطے سے وابستہ سمجھی جاتی رہی ہے اس کا اصل ٹھکانہ سرائیکی خطے میں دریافت ہوا ہے۔ اس سلسلے میں پنجابی ادب کے ماہرین اور محققین ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ ہمارے عزیز دوست افتخار وڑائچ جو تبلیغی جماعت والوں کی طرح کاندھے پر بستہ لٹکائے بستی بستی نگر نگر پنجابی ہیروز کی تاریخ جمع کر تے ہیں اس کے سامنے بھی یہ انکشاف نیا چیلنج بن گیا ہے۔ ہمیں تو اپنے پُرجوش سرائیکی دوستوں کی لاعلمی یا چشم پوشی پر حیرت ہے جولسان و ثقافت علم و ادب اور تاریخ جغرافیہ کے حوالے سے اپنی انفرادیت کا ڈھنڈوراپیٹتے رہتے ہیں۔ مگر مظفر گڑھ کے قصبہ گجرات کی سوہنی سے بے خبر ہیں۔ شاہد ہمارے سرائیکی وسیب کے پُرجوش وکیلوں اور سیاسی کھیل کے شائق عناصر کو اس قصہ عشق سے اپنے مقاصد کی آبیاری ہوتی نظر نہ آتی ہو۔ ہمیں حکیم محمد اشرف کا شکر گزار ہونا چاہیے جو تحقیق و تخلیق کے ٹھہرے ہوئے پانی میں گاہے بگاہے کنکر پھینک کر علمی حلقوں میںارتعاش پیدا کرتے ہیں۔یہ تو تھا حکیم اشرف صاحب کے حوالے سے انکشاف البتہ حالات و واقعات اس کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کل رواج یہ ہے کہ ہمارے دانشور اور محقق ہر چیز کوتعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں اور ان کی کوشش قبضہ گیری والی ہوتی ہے اور وہ ہر چیز کو اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ اگر میں کہوں کہ وارث شاہ سرائیکی کے شاعر ہیں تو غلط ہوگا،جیسا کہ ہمارے پنجابی دانشور خواجہ فرید کو پنجابی شاعر منوانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ۔اسی طرح گجرات کے پنجابی لکھاری چوہدری اشرف کی کتاب ’ ’ قانون ضد سے ہے قانون کائنات‘‘ کو بنیاد بنا کراگر میں کہوں کہ سوہنی سرائیکی وسیب کی ہے تو مناسب نہ ہوگا، اس کتاب کے علاوہ کوئی جاندار ایسا حوالہ نہیں ملا جس سے اس بات کی تصدیق ہوکہ سوہنی کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سوہنی مہینوال پر معروف محقق اور ریسرچ سکالر ڈاکٹر ممتاز بلوچ بتاتے ہیں کہ سرائیکی میں بہت کم شاعری ہوتی ہے، قدیم شاعر محمد حیات زخمی کے بارے پتہ چلا ہے کہ ان کا غیر مطبوعہ قصہ موجود ہے ، مزید یہ کہ سرائیکی شاعری میں غلام رسول حسرت ملتانی و دیگر شاعروں نے سوہنی مہینوال کا قصہ ناٹک کے انداز میں منظوم کیا مگر باقاعدہ کتاب سامنے نہیں آئی۔سرائیکی زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ فرید کے کلام میں عشقیہ کرداروں کا تذکرہ موجود ہے ، سب سے زیادہ ذکر سسی پنوں کا ہے، ہیر رانجھے کا بھی تذکرہ ہے۔ مہینوال کا ذکر ایک جگہ جبکہ سوہنی کا ذکر تین کافیوں میں آیا ہے۔مگر ان کے کلام سے بھی یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ سوہنی گجرات نہیں بلکہ وسیب کے قصبہ گجرات سے تھیں۔ ( جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ