لگتا ہے تحریک انصاف کے جیالوں کو ’نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘ والا محاورہ ازبر کروایا جاچکا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہو رہا ہے کہ اگر ان کے وکھری ٹائپ کے لیڈر عمران خان کو بطور صدر، ملک کے تمام اختیارات نہ سونپے گئے تو وہ نیا پاکستان بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اسی لئے ’بقائے پاکستان۔ صدارتی نظام‘ کے عنوان سے تحریک انصاف کے مٹھی بھر حامی ملک میں صدارتی نظام نافذ کروانے کی مقدس مہم چلا رہے ہیں۔ تاہم صدارتی نظام کی رادھا کے لئے انہیں نو من تیل اکٹھا کرنے میں خاصی دشواری کا سامنا ہے۔
اس سے بڑی دشواری کیا ہوگی کہ تحریک انصاف کے چہیتے صدر عارف علوی نے بھی ایسے مباحث کو مسترد کیا ہے اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات عمر سرفراز چیمہ نے بھی واضح کیا ہے کہ پارٹی کی میڈیا ٹیم کا سوشل میڈیا پر ہونے والی اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی حیثیت میں ملکی نظام یا کسی بھی معاملہ پر کوئی رائے سامنے لاتا ہے تو اس سے یہ حق واپس نہیں لیا جا سکتا۔ جمہوری معاشرہ میں ہر کسی کو ہر معاملہ پر اپنی رائے رکھنے اور دینے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات کی تردید میں ہی ان کے دل کی خواہش بھی چھپی دکھائی دیتی ہے جو ایک آہ کی صورت سامنے آئی ہے کہ ’یہ بحث پارٹی تو نہیں چلا رہی لیکن کاش ایسا ہو جائے تو کتنا اچھا ہو‘ ۔
بصورت دیگر تحریک انصاف کی حکومت آزادی اظہار کو جوتی کی نوک پر رکھتی ہے اور پیمرا کو میڈیا کے خلاف حکومت کا ہتھیار بنانے کی پے در پے مثالیں قائم کررہی ہے۔ حال ہی میں پیمرا نے ٹی وی اسٹیشن چینل 24 کو نوٹس بھیجا ہے کہ ’وزیر اعظم کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلانے پر اپنے پروگرام‘ نجم سیٹھی کے ساتھ ’میں سات روز کے اندر معافی مانگی جائے‘ ۔ پیمرا نے واضح کیا ہے کہ اس نے یہ کارروائی وزیر اعظم عمران خان کی متعلقہ قواعد کے تحت کی جانے والی شکایت پر اقدام کرتے ہوئے کی ہے۔ البتہ چینل 24 کو پیمرا کے خط میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پروگرام یا ٹیلی ویژن اسٹیشن نے وزیر اعظم کی ذات کے بارے میں وہ کون سی ’غلط خبر‘ نشر کی ہے جس پر معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
البتہ چینل 24 پر پروگرام ’نجم سیٹھی کے ساتھ‘ کے میزبان نجم سیٹھی نے خود ہی یہ بھانڈا پھوڑ دیا کہ انہوں نے 30 مارچ کے پروگرام میں اپنی مشہور زمانہ چڑیا کے حوالے سے خبر دی تھی کہ عمران خان کے فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد فرائیڈے ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں نجم سیٹھی نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے پیمرا سے درخواست کی ہے وہ ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر چینل کے خلاف کارروائی کرے۔
نجم سیٹھی کا مؤقف ہے کہ کوئی لیڈر اور خاص طور سے اگر وہ ملک کا وزیر اعظم بھی ہو، اپنی نجی زندگی پرعمومی مباحث کو رکوانے کا مجاز نہیں ہو سکتا۔ البتہ پیمرا نے ٹی وی چینل کو بھیجے گئے نوٹس میں معافی مانگنے کے علاوہ دس لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ بصورت دیگر یہ شو تیس روز کے لئے بند کر دیا جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ عمران خان اور نجم سیٹھی کے درمیان تعلقات اس وقت سے خراب چلے آرہے ہیں جب 2013 کے انتخابات سے پہلے نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بنے تھے اور بعد میں عمران خان نے ان پر 35 پنکچر لگانے کا الزام عائد کیا تھا۔ نجم سیٹھی نے عمران خان کے اس الزام پر عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ دائر کررکھا ہے جس پر کارروائی عمران خان کے عدم تعاون کی وجہ سے مؤخر ہے۔
ملک میں صدارتی نظام نافذ کروانے کی بحث میں یہ طویل قصہ یہ واضح کرنے کے لئے بیان کرنا پڑا کہ تحریک انصاف کو آزادی اظہار اور رائے کا حق رکھنے سے کس قدر لگاؤ ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کی مشروط تردید کے باوجود یہ حقیقت اب اظہر من الشمس ہے کہ صدارتی نظام کو ملک کے بقا کا سبب قرار دینے کی بحث تحریک انصاف کے حامی ایک باقاعدہ مہم کے طور پر چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے رجحانات پر تحقیق کرنے والے کینیبرا یونیورسٹی کے رضوان سعید نے سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کی حمایت میں چلنے والی مہم کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ عمومی بحث نہیں ہے جس پر عام لوگ رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ بلکہ یہ چند لوگوں کی طرف سے شروع کی گئی پروپیگنڈا مہم ہے جو تحریک انصاف سے تعلق کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس بحث کو عام کرنے اور اس رائے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے ٹوئٹر کا استعمال کررہے ہیں۔
ایک طرف تحریک انصاف غیر سرکاری طور پر صدارتی نظام کے محاسن کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتی ہے تو ’غیر سرکاری‘ طور پر اس کے کارکن اس نظام کو ملک کی بقا کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوئی کوشش ملک کے اتحاد اور جمہوری ثقافت کے لئے مہلک ہوگی۔ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’حکومت کے بعض عناصر اور کچھ غیر جمہوری لوگ صدارتی نظام لانے اور اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام ملک کے اسلامی جمہوری پارلیمانی نظام سے مطمئن ہیں‘ ۔ انہوں نے کہا کی ملک میں جمہوریت کے خلاف غیر جمہوری عناصر اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی خواہش پوری نہیں ہوگی اور یہ ساری سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔
یہ بات حیران کن ہے کہ حکومت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی تحریک انصاف اور وزیر اعظم بنفس نفیس اٹھارویں ترمیم اور صوبوں کے اختیارات کی بحث کوسیاسی ایجنڈے کا حصہ بنا کر غیر ضروری بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حال ہی میں جس طرح حکومت میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور غیر منتخب لوگوں کو اہم وزارتیں سونپی گئی ہیں، ان کی روشنی میں ملک بھر کے تجزیہ نگار یہ اندازے لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ طاقت کا اصل مرکز وزیر اعظم ہاؤس ہے یا امور مملکت اب کہیں اور سے براہ راست طے ہورہے ہیں۔ متعدد تبصروں میں اب عمران خان کو حکومت کا ’برائے نام سربراہ‘ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ اس صورت میں جب بطور وزیر اعظم عمران خان کی اتھارٹی اور پوزیشن پر سوال اٹھائے جارہے ہوں، حکمران جماعت کی طرف سے صدارتی نظام پر بحث کی سرپرستی ناقابل فہم ہے۔
تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں چند ووٹوں کی اکثریت کی حاصل ہے۔ اس لئے کسی آئینی ترمیم کے لئے اسے ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بدعنوانوں کا ٹولہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے پارلیمانی تعاون سے انکار کرچکے ہیں۔ اس لئے کسی آئینی ترمیم کے لئے ان پارٹیوں میں کسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے یہ واضح احکامات بھی موجود ہیں کہ پارلیمنٹ آئین میں کسی ایسی ترمیم کی مجاز نہیں ہے جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کر دے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق عدلیہ کی آزادی اور پارلیمانی نظام موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ شاید اسی لئے ملک میں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام لانے کے سوال ریفرنڈم کروانے کا شوشہ بھی چھوڑا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرادری نے اس قسم کے ریفرنڈم کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے۔
عمران خان کو تحریک انصاف میں جو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور تمام حکومتی فیصلوں میں انہیں جو مرتبہ و مقام ملا ہؤا ہے، ان کی روشنی میں بعض مبصر تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں آدھا صدارتی نظام تو نافذ ہے۔ پھر تحریک انصاف صدارتی نظام کی بیکار بحث سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا اس بحث کا مقصد حکمران پارٹی کی غلطیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ یا یہ کہنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان جیسا لیڈر ’ناقص العقل اور بدعنوان‘ ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہو سکتا؟ یہ دونوں مفروضے عمران خان کی قیادت اور دیانت کے بارے میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے کسی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں۔ تحریک انصاف پر عمران خان مطلق العنان شخص کی طرح قابض ہیں۔ بظاہر بطور وزیر اعظم انہیں اپنے اختیارات استعمال کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ وزیر اعظم کے طور پر ڈلیور کرنے میں ناکام ہورہے ہیں تو یہ دعویٰ کس منہ سے کرسکتے ہیں کہ اگر وہ ’با اختیار صدر‘ بن کر بہتر پرفارم کرسکیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ جو عناصر تحریک انصاف کو صدارتی نظام کی بحث میں الجھا رہے ہیں، پارلیمانی نظام کی آڑ میں ان کا اصل نشانہ ملک کا وزیر اعظم ہی ہو۔
عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ کابینہ چننے کا اختیار کھو دینے کے بعد اب ان کے پاس بہترین آپشن صدارتی نظام کی بحث ہے یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر حکومتی اختیار واپس لینے کی کوشش کرنا بہتر ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ