احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز ، بیٹوں حسن نواز ، حسین نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے متعلق نیب ریفرنسز کا فیصلہ سنا دیا۔ سزا کا فیصلہ سننے کے بعد میاں نواز شریف نے کہا سزائیں میری جدوجہد کار استہ نہیں روک سکتیں۔۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ بڑے ڈاکو اب جیل جائیں گے ۔ فیصلے کی خاص بات یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے 173 صفحات پر مشتمل احتساب عدالت کا فیصلہ اسی ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں سنا جس کے متعلق یہ کیس تھا ۔ فیصلے کے اعلان میں بار بار کے التوا نے قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا ۔ کہا جا رہا تھا کہ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آئے گا لیکن کچھ نہیں ہوا ۔ بذاتِ خود یہی بات نواز شریف کے لئے عبرت کا باعث ہونی چاہئے ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ اب نادیدہ قوتیں ن لیگ کے بیلٹ بکس نہیں بھریں گی اور اب وہ جج بھی نہیں رہے جو میاں شہباز شریف کی حکومت کو پانچ سال تک سٹے آرڈر پر چلاتے رہے۔ سوشل میڈیا پر مجھے کیوں نکالا کے حوالے سے بہت باتیں آ رہی ہیں ۔ ایک صاحب نے لکھا کہ فیصلہ سنانے والے کا نام بشیر ہے اور بشیر کا مطلب خوشخبری دینے والا ہے۔ اوپر سے خوشخبری کے ساتھ یوم حساب بابرکت جمعہ کا روز ٹھہرا ۔ جمعہ سے یاد آیا کہ میاں نواز شریف کے خلاف اکثر فیصلے جمعہ کے دن آئے ۔ 28 جولائی 2017 ء بروز جمعہ پانامہ کیس کا فیصلے میں میاں نواز شریف کی نا اہلی ، 13 اپریل 2018 ء بروز جمعہ کو آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلقہ فیصلہ ، نواز شریف تا حیات نا اہل ، 19 اکتوبر 2012 ء بروز جمعہ اصغر خان کیس کے فیصلے میں میاں نواز شریف و دیگر کے خلاف تحقیقات کا حکم ، اسی طرح بہت سے اہم فیصلے جمعہ کے روز دیئے گئے۔ اصولی بات یہ ہے کہ احتساب یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے ۔ گزشتہ دور حکومت میں صرف پیپلز پارٹی کا احتساب ہوا اور میڈیا ٹرائل بھی اس کا ہوتا رہا ۔ آج ن لیگ کا ٹرائل ہو رہا ہے اور میاں صاحبان اسی گڑھے میں گرے ہیں جو اس نے دوسروں کیلئے خود کھودے تھے ، یہی مقافاتِ عمل ہے ۔ نیب قوانین اور عدالتیں میاں نواز شریف کے دور میں بنائی گئیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو تیس سیکنڈ کی ڈیزائن شدہ سزا سنائی گئی تو اس وقت میاں نواز شریف بہت زیادہ پرجوش تھے اور اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ اگر گیلانی ایوانِ وزیراعظم سے باہر نہ نکلے تو ان کو گھسیٹ کر باہر نکالا جائے گا ۔ آج وہ وقت خود پر آیا ہے تو وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصولی طور پر کوئی ذی شعور آدمی اس بات کے حق میں نہیں کہ یکطرفہ احتساب ہو ،یہ بھی سب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخواہ میں پانچ سال حکومت کرنے والی تحریک انصاف سمیت کوئی بھی جماعت پاک دامن نہیں ۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور یکطرفہ احتساب کا تاثر زبانی کلامی نہیں عملی طور پر ختم ہونا چاہئے اور انصاف نظر آنا چاہئے ۔ البتہ میاں نواز شریف احتساب کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کا عمل شروع کریں اور اس پر غور کریں کہ ان کو کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ مجھے کیوں نکالا کی تحریک انصاف اپنی توضیح اور تشریح کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے مگر میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کو محروم اور پسماندہ علاقوں کی بد دعائیں لے ڈوبیں ۔ اب بھی وہ محروم خطوں کا ذکر حقارت سے کرتے ہیں ، بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور چیئرمین سینیٹ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے ، کے انتخاب کو مسلسل ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں اور سابق وزیراعلیٰ کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کی اہلیت بارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب نے خود اپنے انتخاب پر کبھی غور کیا؟ کیا یہ مسلمہ حقیقت نہیں کہ سابق فوجی گورنر غلام جیلانی خان اور جنرل ضیاء الحق جب ان کو سیاست میں لے آئے تو ان کی اپنی سیاسی اہلیت صفر تھی ، اس وقت چھوٹے صوبوں کے سیاستدان کہہ سکتے تھے کہ پنجاب اپنی طاقت کے بل بوتے پر سیاسی روبوٹ مسلط کر رہا ہے مگر انہوںنے ایسا نہیں کہا ۔ اگر نواز شریف میں سیاسی بصیرت ہو تو وہ یہ بات سمجھیں کہ چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب سے متعلق ان کے بیانات چھوٹے صوبے کے ساتھ ساتھ محروم اور پسماندہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں عوام کے زخموں پر مرہم کی بجائے نمک پاشی کا کام کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پاکستان کے کروڑوں محروم عوام کی بد دعائیں میاں نواز شریف کو لے ڈوبیں ، میاں صاحبان جب بھی بر سر اقتدار آئے انہوں نے غریبوں سے روزگار اور منہ کا نوالہ چھین کر بڑے بڑے صنعتکاروں ، تاجروں اور مراعات یافتہ طبقے کو دیا۔ ان کے دور میں غریب ، غریب سے غریب تر اور امیر ، امیر سے امیر تر ہوا ۔ ان ہی کے دور میں محروم اور پسماندہ علاقے مزید پسماندہ ہوئے جبکہ انہوں نے وسائل کو ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی پر خرچ کیا ۔ میاں صاحبان پر پہلے یہ الزام تھا کہ وہ پورے صوبے کے وسائل لاہور پر خرچ کرتے ہیں مگر جب ایک بھائی مرکز میں اور دوسرا صوبے میں بر سر اقتدار آتا ہے تو صوبے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے وسائل بھی بیدردی کے ساتھ لاہور پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں ۔ ستم بالا ستم یہ کہ محروم اور پسماندہ علاقوں کی چیخ و پکار کوئی سننے والا نہیںہوتا ۔ انہی کے دور میں ان کے بارے میں یہ بات زبان زد خاص و عام ہوئی کہ ایک بھائی سنتا نہیں ، دوسرا سمجھتا نہیں ۔ محرومی کا ذکر چلا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ گزشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے منشور میں یہ شامل تھا کہ مسلم لیگ ن بر سر اقتدار آنے کے بعد پنجاب میں دو نئے صوبے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے بنائے گی۔ ن لیگ بر سر اقتدار آئی ، پنجاب اور مرکز میں اسے واضح دو تہائی اکثریت حاصل تھی ۔ اس کے باوجود اس نے اپنے وعدے کے مطابق پنجاب میں دو تو کیا ایک بھی صوبہ نہ بنایا ۔ کسی بھی جماعت کا منشور اس کے لئے مقدس دستاویز ہوتا ہے اور جس منشور کی بناء پر مینڈیٹ حاصل کیا جائے ، اس پر عمل کرنا صرف اخلاقی نہیں ، قومی اور آئینی ذمہ داری بھی بن جاتی ہے اور جو جماعت اپنے ہی آئین پر عمل نہ کرے وہ سب سے بڑی قانون شکن جماعت کہلاتی ہے اور آئین پاکستان کی دفعہ 62، 63 اس پر از خود لاگو ہو جاتی ہے ۔ مسلم لیگ ن نے صرف یہ نہیں کہ اپنے آئین پر عمل نہ کرنے کا جرم کیا بلکہ جب خدا ناراض ہوتا ہے تو پھر گناہوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے موجودہ الیکشن کے موقع پر جو منشور جاری کیا ہے اس میں بہاولپور ، جنوبی پنجاب میں سے کسی بھی صوبے کا ذکر نہیں ۔ گویا وہ صوبے کے اپنے ہی وعدے سے مکر گئی ہے ۔ میاں نواز شریف مجھے کیوں نکالا کی تکرار سے پہلے سرائیکی وسیب اور دوسرے پسماندہ علاقوں کے ساتھ اپنے سلوک پر غور کریں ان کو مجھے کیوں نکالا کا جواب خودبخود مل جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ