شرجیل میمن سے مبینہ طور پر شراب کی برآمدگی کے بعد شراب کے قانونی و غیر قانونی ہونے پر بحث چل پڑی ہے۔ خاکسار نے اس کیس اسٹڈی کو اپنی کتاب کے باب ”قیمتوں کے نظام“ میں مختصراً ڈسکس کرنے کی کوشش کی ہے جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
۔ ۔ ۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کی کچھ تعداد ایسی بھی ہے جو شراب کو پسند کرتی ہے اور اسے پینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے شراب نوشی پر پابندی لگائی ہوئی ہے یوں شراب اوپن مارکیٹ میں دستیاب ہے ہی نہیں۔ اب خریدار تو موجود ہے اور شراب بنانے والے بھی۔ یوں شراب کی تیاری اور خرید و فروخت اوپن مارکیٹ سے بلیک مارکیٹ یا ان فارمل مارکیٹ کی طرف شفٹ ہوگئی ہے۔ اس سے ہوا کیا ہے؟
ایک یہ کہ شراب مارکیٹ کی کوالٹی بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ مارکیٹ منشیات فروشوں اور سٹیٹس کو کے زیر سایہ کام کرنے والے بدمعاش لوگوں کے قبضہ میں آ گئی ہے جو اپنی اجارہ داری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں (شریف لوگوں کے لئے اس مارکیٹ میں کام کرنے کی حکومت نے قانونی طور پر گنجائش جو نہیں رکھی )۔ ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں کہ فلاں خوشی کی تقریب میں لوگوں نے شراب پی جو مکمل طور پر تیار یعنی پکی نہیں تھی یا اس میں زہر ملا ہوا تھا جس سے اتنے لوگوں کی ہلاکت ہوگئی۔ یوں بلیک مارکیٹ میں حفظان صحت کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اسی حوالے سے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جو چار بڑے امراض پائے جاتے ہیں جن سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں
1 : ہیپاٹائٹس B
2 : بچوں میں موٹاپا
3 : تشدد
4 : مضر صحت الکحل کی پاکستان میں کھپت ( consumption )
جی ہاں۔ پاکستان میں خراب کوالٹی کی شراب کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کل غیر طبعی ہلاکتوں کے اعتبار سے چوتھے نمبر پہ ہے (128)
دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ گورنمنٹ اپنے ٹیکس ریونیو سے محروم ہوگئی۔
تیسرا ایک بڑی مارکیٹ جو لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر سکتی تھی اسے بند کر دیا گیا۔
چوتھا یہ کہ تمام شہریوں سے امتیاز برتا گیا۔ وہ اس طرح سے کہ جس طرح لوکل مارکیٹ میں بلیک اکانومی ہوتی ہے اسی طرح ایکسپورٹ امپورٹ کی مارکیٹ میں بھی بلیک اکانومی پائی جاتی ہے۔ یہاں ایک بات خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے کہ وہ اشیاء وخدمات جو اوپن مارکیٹ میں کم داموں پردستیاب ہوسکتی ہیں، بلیک مارکیٹ میں ان کی قیمت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اب ایک عام آدمی جو شراب پینا چاہتا ہے وہ مہنگی مگر ناقابل اعتبار کوالٹی کی شراب پینے پر مجبور ہے۔ جبکہ طبقہ امراء کے لوگ امپورٹ کی بلیک اکانومی کے سبب غیر ملکی مشروبات کی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔ مارکیٹ موجود رہتی ہے صرف خریدار اور سیلرز اپنی لوکیشن اور ٹرانزیکشن (لین دین ) کے طریقہ کار کو بدل دیتے ہیں۔
پنجم یہ کہ بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں اچھی کوالٹی کا دستیاب ہونا بذات خود امتیازی رتبہ کی شناخت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ لوگ اپنی تقریبات میں اسے فخر سے پیش کرتے ہیں اور اس بات پر اتراتے ہیں کہ دیکھیں جی یہ پروڈکٹ فلاں ملک کا ہے یہ مارکیٹ میں بھلا کہاں سے ملتا ہے اسے ہم نے اپنے خاص ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ یوں سٹیٹس سمبل بننا اس رجحان میں رتبہ اور ایڈونچر پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں میں اس ایڈونچر کا شوق پیدا ہوتا ہے کہ وہ کچھ انوکھا کام کریں جو دوسرے نہیں کر رہے اور چونکہ شراب نوجوانوں کے لیے مرغوب بھی ہوتی ہے اس لئے اس میں ایڈونچر کا شوق اور اس کی مرغوبیت شراب نوشی کے مزید رجحانات کو جنم دیتی ہے۔
وہ تمام اشیاء و خدمات جو یا تو ممنوع کر دی جاتی ہیں یا ان پر قیمتوں کے کنترول کا نظام نافذ کر دیا جاتا ہے مگر صارفین کو ان کی ضرورت ہنوز رہتی ہے تو وہ اشیاء و خدمات بلیک مارکیٹ میں ہی منتقل ہوجاتی ہیں۔ بلیک مارکیٹ میں قیمتیں اوپن مارکیٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی ایک بڑی وجہ قانونی خطرہ کا ہونا ہے جسے پورا ( Compensate) کرنے کے لیے سیلرز زیادہ قیمتیں وصول کرتے ہیں۔
قانونی خطرہ کے علاوہ مقابلہ کی ثقافت کی عدم موجودگی کے سبب بھی اجارہ داری کی لاگت (cost)، سیاستدانوں اور بیوروکریٹ انتظامیہ سے بچنے کے لیے کرپشن کی لاگت، راء میٹریل، سپلائی اور پیداواری سرگرمی کو خفیہ رکھنے کے سبب آنے والی مزید لاگت اور باقی دوسری لاگتیں مل کر بلیک مارکیٹ کی قیمتوں کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں یوں اس مارکیٹ سے مستفید ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق طبقہ امراء سے ہی ہوتا ہے کیونکہ صرف وہ لوگ ہی اتنی زیادہ قیمت افورڈ کر سکتے ہیں اور جو سستا مگر غیر معیاری مال بچتا ہے وہ عام شہریوں کے لئے ہوتا ہے جو عموما ان کی ہلاکت یا ان میں بیماریوں کا سبب بنتا ہے ۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشیاء و خدمات پر یہ پابندی دراصل غرباء کی قوت خرید پر ہی پابندی ہوتی ہے جبکہ امراء اس سہولت سے مستفید ہوتے ہی رہتے ہیں چاہے پہلے کی نسبت اب ان کے اخراجات زیادہ ہی کیوں نہ آ رہے ہوں۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور)