ملتان کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اس شہر نے وقت کے عروج و زوال سے اپنی شناخت کو کبھی مسخ نہیں ہونے دیا۔ اس شہر کو صوفیا کرام کی دھرتی بھی کہا جاتا ہے۔ اگر چہ یہ شہر بہت سے حملہ آوروں کے حملوں کو سہتا رہا مگر یہاں کے مقامی باشندے ان حملہ آوروں کے وار سے ابھر کر معمولات زندگی کو احسن طریقے سے چلاتے اور نبھاتے رہے۔ مگر کچھ ایسے زخم بھی اس شہر نے اپنے سینے پے سجا کے رکھے جن کو دیکھ کے دکھ ہوتا ہے۔ میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا نہ ہی میں تاریخ کے اوراق پلٹ کر سب پُرانے زخم کریدنا چاہتا ہوں۔ میں پاکستان بننے کے بعد جو زخم اس شہر نے کھائے ہیں اُن میں سے ایک گھائو کا تذکرہ میں یہاں پر ضرور کرنا چاہوں گا۔
برصغیر کو جب مذہب کے نام پر تقسم کیا گیا تو اس خطے میں مذہبی رواداری کی روایات کو بھی زک پہنچی۔ 70 سال کی اس مختصر تاریخ میں ایسے بہت سارے واقعات ہوئے جو مذہبی عدم برداشت کی بد نما مثالوں سے مزین ہیں۔ خاص کر تقسیم ہند کے اوائل کے دنوں میں بہت سے فسادات پھوٹ پڑے تھے جن کی وجہ سے لاکھوں لوگ جان سے گئے اور لاکھوں لُٹے جسموں اور روحوں کا بوجھ سنبھال کر اپنے ہی آبائی وطن سے در بدر ہوئے۔ در بدری کا دکھ بہت گہرا ہوتا ہے کیونکہ انسان پل پل اپنے آپ سے بچھڑتا اور کٹتا رہتا ہے۔تقسیم کے بعد مذہبی عدم برداشت کے بیج ہماری یاداشتوں کی مٹی میں مختلف شکلوں میں بوئے اور اُگائے جاتے رہے مگر پاکستان کے بننے کے بعد ضیا الحق کے اقدامات سے مذہبی عدم برداشت کا دوزخ آگ اُگلنے لگا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس دوزخ میں کتنے لوگ جلے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ یہ سلسلہ آج تک رُکا نہیں کسی نہ کسی شکل میں یہ ہمارے معاشرے کو بد نُما بنا رہا ہے۔ 6 دسمبر 1992 کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جب قلعہ کہنہ قاسم باغ کے قریب واقع قدیم ترین پرھلاد مندر کو بابری مسجد کی شہادت کے ردِ عمل میں لوگوں کے ہجوم نے گرا دیا تھا۔ اس رد عمل میں پاکستان میں سینکڑوں چھوٹے بڑے مندر مسمار کر دیئے گئے تھے۔ وکی پیڈیا کے مطابق پرھلاد ملتان کے ایک بادشاہ کا بیٹا تھا جس نے اس مندر کو بھگوان وشنو کے اوتار نارسنگ کے اعزاز میں بنوایا۔
1992ء سے لے کر اب تک یہ مندر ایک کھنڈر کی تصویر بنا ہوا ہے اور اسے دوبارہ مرمت کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ 2008ء میں انتظامیہ نے اسے گرا کر لنگرخانہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہندو اقلیت میں ہونے کی وجہ سے خاموش رہے تاہم ملتان کی سول سوسائٹی اور نیشنل کالج آف آرٹس نے اس مندر کو بچانے کی بھرپور کوششی کی۔ ایک طرف تو عدالت سے لنگرخانہ کی تعمیر کے خلاف حکم امتناعی حاصل کیا گیا اور دوسری طرف تھیٹر اور کئی دوسرے طریقوں سے عوام اور طالبعلموں میں آگاہی کا عمل شروع کیا گیا۔ اس سے یہ بات تو طے ہے کہ ساری اکثریت ملک کی اقلیتوں کے خلاف نہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجہ میں 2015ء میں اوقاف کے وزیر صدیق الفاروق نے اسے قومی اثاثہ قراردیتے ہوئے اس مندر کی بحالی کے لئے 50 لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ تاہم اس حکم پر عمل ہونا ابھی باقی ہے
خوش قسمتی سے مُلک کے طول و عرض میں اس طرح کی بہت ساری تنظیمیں آج بھی موجود ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کر رہی ہیں مگر لوگوں کو بھڑکانے والوں اور انہیں تشدد پر اُکسانے والوں کی روزی روٹی بھی ابھی خوب چلتی ہے۔ افغانستان کے بامیان شہر میں بُدھا کے مجسموں کے گرائے جانے سے لے کر شام کے تاریخی و مذہبی ورثے کو نیست و نابود کرنے تک کا سلسلہ اگرچہ رُکا نہیں مگر دُنیا میں اس عمل کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں بھی دبائی نہیں جا سکیں۔ ہو سکتا ہے یہ سلسلہ مکمل طور پر رُک نہ سکے کیونکہ مذہب کو جب سیاست سے جوڑا جاتا ہے تو پھر بہت سے انسانی المیے جنم لیتے رہتے ہیں۔ وہ چاہے آنگ سانگ سوچی کے مُلک برما میں حالیہ تشدد کی لہر ہو جس میں روہنگیا مسلمانوں کو مذہبی عدم رواداری کا سامنا ہے ، بھارت میں اقلیتوں کے اندر پلنے والا عدم تحفظ کا احساس ہو ، حالیہ دنوں میں بدلتے یورپ کے دائیں بازو کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہو ، تُرکی میں گولن کے لاکھوں پیرو کاروں کو جیل میں ڈالنے کا قضیہ ہو یا پھر پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار ہو ۔ یہ سب کل کے بھی سوال تھے اور آج کے بھی سوال ہیں جن کا جواب دینا باقی ہے ۔ مگر حکومت پاکستان کے کچھ حالیہ اقدامات سے خوشگوار حیرت ضرور ہوئی ہے جس میں سندھ حکومت کی اس سلسلے میں حالیہ قانون سازی جس پر مذہب کے ایک نام نہاد ٹھیکیدار اور دائیں بازو کے لکھاری نے شدید نکتہ چینی بھی کی مگر اس کے نام کی طرح وہ زیادہ مقبول عام نہیں ہو پائی اس کے بعد وفاقی حکومت کا قائد اعظم یونیورسٹی میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنا ایک قابل تحسین قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے مگر ابھی عام لوگوں میں مذہبی رواداری پیدا کرنے کے حوالے سے بہت سا کام کرنا باقی ہے۔
فیس بک کمینٹ