کسی کو انکار کرنا یا ناراض ہونا پروفیسر عاصی کرنالی کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ان کی زندگی میں ہم نے بارہا ان سے اختلاف کیا، ان سے جھگڑا کیا، ان کے بارے میں تندوتیز کالم اور مضامین بھی لکھے مگر مجال ہے جو ایک آدھ بار کے سوا ان کے لبوں پر کبھی حرف شکایت بھی آیا ہو۔ ہمیں ان سے جب بھی اختلاف ہوتا ہم برملا اس کا اظہار کرتے تھے۔ ہمیں شکایت ہوتی تھی کہ عاصی صاحب کے ہاں ادب سے کمٹمنٹ تو ملتی ہے مگر وہ ادب میں نظریے کے قائل کیوں نہیں؟ ہمیں اعتراض ہوتا تھا کہ وہ فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ وہ جمہوریت کے قتل پر خاموش کیوں رہتے ہیں؟ہمیں ان سے گلہ تھا کہ وہ متشاعروں کو غزلیں کیو ں دیتے ہیں؟ اور انٹر ویوز کے دوران جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کون لوگ اچھے شعر کہہ رہے ہیں تو وہ جواب میں ” اسم شماری سے معذرت“ کیوں کہتے ہیں؟ان پر یہ الزام بھی لگا کہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران محکمہ تعلیم سے وابستہ بعض جمہوریت پسند ادیبوں ، شاعروں کے تبادلوں اور گرفتاریوں میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ ہم ایسے بہت سے سوالات ان سے بسا اوقات جارحانہ انداز میں بھی کرتے مگر عاصی صاحب کے ماتھے پر کبھی بل نہ آتا تھا۔ وہ نئے لکھاریوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور بسا اوقات ان کی تعریف ” ضرورت سے زیادہ“ کے زمرے میں بھی آتی تھی۔ لیکن یہ ان کا ایک انداز تھا تربیت کا اور حوصلہ بڑھانے کا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو نئے لکھاریوں کے کلام سے اوزان کی غلطیاں نکال کر اپنی ” کہنہ مشقی“ کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ عاصی کرنالی اپنی وضع کے انسان تھے۔ بسا اوقات تو اپنی انکساری اور ملائمت سے لاجواب کردیتے تھے ۔
ایک بارہم نے لکھا” عاصی صاحب نام کے شریف ہیں“
جواب آیا” یہ تو ایک حقیقت ہے میرا نام شریف احمد ہی ہے۔“
ہم نے لکھا” ثمر بانو ہاشمی کہتی ہیں۔ میری ساری زندگی کوبے ثمر اُس نے کیا“
کہنے لگے” وہ تو یہ کبھی نہیں کہہ سکتیں مگر آپ کا جملہ بہت خوبصورت ہے“۔
ایک مضمون میں ہم نے لکھا اگر ”لبِ خنداں“ کے تمام مضامین عاصی صاحب نے اپنی اہلیہ کے بارے میں ہی لکھے ہوتے تو پوری کتاب معرکة الآرا ہوتی۔“
عاصی صاحب نے جوابی مضمون میں اس جملے کی خاص طور پر تعریف کر دی۔
عاصی صاحب کے بارے میں ہمارے مضامین پر حسین سحر اور اقبال ارشد کو تو غصہ آجاتا تھا مگر عاصی صاحب ہمیشہ مسکرا کر ہمارے جارحانہ جملوں کا خیر مقدم کرتے۔ یہ ایک انداز تھا جواب نہ دے کر لاجواب کرنے کا۔
مشاعروں میں بھی ان کا یہی رویہ ہوتا تھا۔ ہم کبھی غزل میں کوئی غلط مصرع یا غلط لفظ استعمال کرتے تو عاصی صاحب مشاعرے کے بعد ہاتھ تھام کر ہمیں الگ لے جاتے۔ غلطی کی نشاندہی بھی اس انداز میں کرتے کہ جیسے غلطی ہم سے نہیں خود ان سے سرزد ہوئی ہو۔” بس دیکھ لیجئے گا…. ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں…. مگر شاید یہ لفظ یوں نہیں یوں ہے“۔
عاصی کرنالی کا سب سے ہی محبت بھرا تعلق تھا لیکن میرے اور ان کے تعلق میں محبت کے ساتھ شکایت بھی شامل رہی۔ اور محبت کے ساتھ جب شکایت شامل ہوجائے تو تعلق مستحکم بھی ہوتا ہے اور یکطرفہ بھی نہیں رہتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ عاصی کرنالی نے میری شکایتوں کے جواب میں بھی مجھے محبتوں سے نوازا۔ اکتوبر 1978ء کی صبح انہوں نے نیشنل سنٹر میں میرا ہاتھ تھاما تھا میں اپنے سکول کی طرف سے تقریری مقابلے میں حصہ لینے آیا تھا عاصی صاحب تقریب کی صدارت کر رہے تھے اور میں نے آٹھویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے ان سے ہی انعام وصول کیا تھا اور انعام وصول کرنے کے بعد تصویر بنوائے بغیر ان سے ہاتھ چھڑا کر واپس پلٹنا چاہا تو انہوں نے فوٹو گرافر انور امروہوی صاحب کے کہنے پر میرا ہاتھ تھام لیا اور اس وقت تک تھامے رکھا جب تک تصویر نہ بن گئی ۔ بعد کے برسوں میں میں نے پہلے روز کی طرح ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر عاصی صاحب نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ 20جنوری 2011ءکی شام وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر چپکے سے عدم کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔