فرحت الّلہ بیگ نے لکھا تھا ” دلی کا یادگار مشاعرہ “۔ میرے لئے بن گیا ” سِبّی کا یادگار مشاعرہ “۔
اس لئے کہ وہ میرا اور پاپا کا پہلا اور آخری مشاعرہ تھا جس میں ہم دونوں ہم سفر،ہم نشیں تھے۔ ان دنوں جنرل رحیم الدین بلوچستان میں تعینات تھے، اور بیگم ثاقبہ نے ہم دونوں کو مدعو کیا تھا۔ملتان سے عاصی کرنالی بھی ہمراہ تھے۔1982ء فروری کی 19 تاریخ اور سِبّی میں برفیلی ہوائیں چل رہی تھیں۔رات کے ڈھائی بجے مشاعرہ اختتام کو پہنچا۔ اتنی دیر تک میں اور پاپا کبھی نہیں جاگے تھے۔مشاعرے میں ان شاعروں کو دیکھا جن کو میں کبھی نہ دیکھ پاتی ، مثلاً ظہیر کاشمیری، حمایت علی شاعر،شان الحق حقی،محسن بھوپالی ،پروین فناسید ، قتیل شفائی ، اور کوئٹہ کا خوش کلام شاعر عطا شاد۔کچھ لوگ وہ بھی تھے جو پاپا کے پرانے دوست تھے، جیسے خاطر غزنوی،محسن احسان۔
خاطر غزنوی کا یہ شعر
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہؤا کچھ لوگ پہچانے گئے
اور محسن احسان کا یہ شعر میرے لۓ معنویت رکھتا ہے
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سرِ کربلائےعصر
اور سوچتا ہوں میرے طرف دار کیا ہوئے؟
مشاعرے کے بعد سبّی کے کالج کے لڑکے ہم پر ٹوٹ پڑے، میں اور پروین فنا سید ان کی حیرت میں اضافہ کرنے کو کافی تھے، وہ سبّی کے مسائل بتا رہے تھے کہ وہاں لڑکیوں کو گھر سے نکلنا بھی منع ہے، اسکول،پڑھائی لکھائی تو دُور کی بات ہے۔
بلوچستان میں اتنی غربت ہے کہ پاپا کے بقول اگر وہاں کے دیہات میں کوئی بیمار پڑ جاتا تو اسے مسجد میں رکھ آتے تھے اور ساتھ ایک پانی کا پیالہ اور بس۔ مجھے یاد آ رہا تھا ایک افسانہ ادبیات میں پڑھا تھا ،برفباری کی رات میں ایک مزدور کی بچی نمونیا میں مر رہی تھی لیکن غریب میاں بیوی کے پاس آگ جلانے کو ماچس نہیں تھی۔( شرم آنی چاہیے وہاں کے مقتدر طبقے کو! )
رات بھیگ چلی تھی پر وہاں کے نوجوانوں کے پاس سنانے کے لئے مسائل کا ایک انبار تھا۔۔بہ مشکل تمام ان حضرات سے اجازت مانگ کر میں اور پروین فنا سید اپنے کمرے میں آۓ۔ اگلے روز شام کو واپسی تھی اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہو ہو کر روٹھ چُکی تھیں۔
یہ سبّی میلہ ہر سال لگتا ہے اور مشاعرہ اس کا آخری پروگرام تھا،اس سے پہلے شاید اسٹیج ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام بھی ہوۓ ہونگے، کیونکہ گھومتے پھرتے یہ لوگ بھی نظر پڑے جنہیں کمرے میں ٹی وی پر ہی دیکھا تھا، قاضی واجد،معین اختر، عالمگیر وغیرہ۔
مشاعرے کی رات کو تو پرل کانٹی نینٹل والا اہتمام و احتشام تھا ۔ میزوں پر انواع و اقسام کے کھانے چنے تھے، بیرے گھوم رہے تھے۔۔مگر مشاعرے کے بعد کوئی پُرسانِ حال نہ تھا، مشاعرے کے شاعر عادی ہوں گے ہم حیران تھے!
اتنا غنیمت ہوا کہ واپسی کی دوپہر کو ایک دیگ ہم لوگوں کےلئے بنا کر لادی گئی ، وہ وہاں کے رواج اور سخت سردی کی وجہ سے چانپوں اور اُبلے انڈوں کا سالن تھا۔ چونکہ ہم دو ہی عورتیں تھیں اس لئے برتانے کا فرض ہمارا ٹھہرا تھا۔ پروین فنا سید دیگ میں سے سالن پلیٹ میں ڈالتیں اور میں آگے بڑھاتی۔ وہ خاتون ِ خانہ تھیں اور حساب جانتی ہوں گی کہ کتنے لوگوں کو کتنا کتنا حصہ ملے تو کھانا پورا پڑے گا۔ ایک چانپ ایک انڈے کے ساتھ تقسیم ہو رہی تھی ،لیکن قتیل شفائی صاحب نے تین چار چانپیں اور اتنے ہی انڈے اپنی پلیٹ میں ڈلوائے۔ مجھے گرِ کر کھانے والوں سے ہمیشہ وحشت رہی ہے چہ جائے کہ کوئی شاعر ایسا کرے۔ میری دانست میں ایک دانشور(میں شاعر کو دانشور سمجھتی ہوں) کو بہت نفیس ہونا چاہئے۔ مگر میرے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟
فیس بک کمینٹ