ہمارے محمد خاں المعروف عبداللہ حسین کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ اپنے قد کاٹھ، ڈیل ڈول اور بات چیت کے حوالے سے جداگانہ شخصیت کے حامل تھے کچھ ایسے ہی وہ اپنی ناولوں، ناولٹوں اور کہانیوں کے سبّب پہچانے جاتے ہیں۔ ’’اُداس نسلیں، باگھ، قید، رات، نشیب ، نادار لوگ اور فریب‘‘ اس قدر مختصر ادبی سازو سامان لیکن دَکھ اور شوبھا دِل فریب۔
ان کی تخلیقات پر بہت کام ہو چکا ہے اور ابھی ہو رہا ہے۔ ان کی وفات کو ایک برس گزر چُکا، ان کی وفات پر اردو اور انگریزی میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اُن کی زندگی میں اور اُن کی وفات کے بعد ان کے حوالے سے بہت سی محفلیں بر پا کی گئیں۔ تاہم ہفتہ 8 جولائی 2017ء کو ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے زیرِ اہتمام پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہونے والی محفل ذرا ہٹ کے تھی۔ دیگر احباب نے عبداللہ حسین کے حوالے سے جو بات کی اس کی افادیت اپنی جگہ تاہم محفل میں موجود عبداللہ حسین کی بیٹی کی گفتگو اس کا حاصل تھی۔
شروع میں وہ اتنی سی بات کرنے کے بعد خاموش ہو گئیں کہ ’’مجھے اندازہ تو تھا کہ بابا کی تخلیقات پڑھنے والے بہت ہیں، میں پاکستان یا ہندوستان میں جب کبھی سفر کرتی ہوں تو وہاں مختلف کتب گھر میں ’’اداس نسلیں‘‘ اور دیگر تخلیقات دیکھ کر دوگونہ خوشی بھی ہوتی تھی، تاہم آج کی محفل میں بابا کے بارے میں اور ان کے تخلیقی کام کے بارے میں سُن کر اور ان کی ذات سے محبت کو دیکھ کر مجھے دِلی مسّرت حاصل ہوئی ہے۔‘‘ تاہم سامعین کے اصرار پر کہ وہ کچھ ذاتی نوعیت کی باتیں ہمیں بتائیں جو عام طور پر عبداللہ حُسین کو پڑھنے والے اور ایک ادیب کے طور پر عبداللہ حسین کو جاننے والے اُن کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔
تب انھوں نے کہنا شروع کیا؛ ’’بہت بچپن ہی میں والدہ کی وفات ہو جانے کے باعث بابا کی پرورش شِملہ میں ایک اینگلو انڈین خاتون مَیری کے ہاتھوں ہوئی، اس سے دو مثبت باتیں نکلیں ایک تو بطور سیکولر ان کی شخصیت وضع ہوئی دوسرا ان کی انگریزی زبان بھی اس سے بہتر ہوئی۔ ایک اور بات جو شاید آپ سب لوگوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنے وہ یہ ہے کہ جب بابا ابھی ’’اُداس نسلیں ‘‘ لکھ رہے تھے تو اپنے خطوط میں اس کے بہت سے حصے لکھ بھیجے تھے جو ماما کے پاس ایک صندوق میں بند ہیں اور باوجود ہماری کوشش اور خواہش کے وہ ہمیں دینے پر راضی ہیں نہ چھپوانے پر، دو تین تالے لگا کر رکھ چھوڑے ہیں۔ اور جہاں تک اُن کے بارے میں یہ بات کی جاتی ہے کہ وہ فکشن کو حقائق کے ساتھ ملا کر بیان کرتے تھے تو اس کے بھی ہمیں اپنی ماما کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کتنے ہی ثبوت ملے ہیں مثال کے طور پر ’’اُداس نسلیں‘‘ میں ایک جگہ نعیم اور عذرا ایک درخت کے نیچے ایک ہی کپ سے چائے پیتے ہیں تو ماما بتاتی ہیں کہ ایسا بھی ہم کر چُکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے واقعات کو کس جگہ بیان کیا ہے۔
ماما بتاتی ہیں ’’ شادی پر جب بارات گھر پر پہنچی تو بڑی بوڑھیوں نے دولھا کو ڈھونڈا تو وہ دور سے ہی نظر آ رہا تھا، وہ کہنے لگیں ’’دولہا، گھوڑی پر سوار ہے۔‘‘ لیکن جب وہ قریب پہنچے تو پتہ چلا وہ پیدل ہی چلے آ رہے ہیں۔ اصل میں ان کا قد بہت بڑا تھا اور اُوپر سے انھوں نے کُلّہ پہن رکھا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ گھوڑی پر چلے آرہے ہیں۔ اسی قد اور خوب صورتی کی وجہ سے اکثر عورتیں اُنھیں پسند کر بیٹھتی تھیں۔ ماما بھی ہر وقت اُن پر نظر رکھتی تھیں تو کئی بار بڑی دلچسپ صورتِ حال پیدا ہو جایا کرتی تھی۔
بابا، تیسری شادی کے بعد پیدا ہوئے تھے اور خاندان میں یہ عجیب روایت چلی آ رہی تھی کہ ہمیشہ اکلوتا بچّہ پیدا ہوتا۔ بابا بھی اکیلے ہی ہوئے، لیکن جب پیدا ہوئے تو اتنے سرخ و سپید اور خوب صورت تھے کہ پیر صاحب سے دم کرانے کے لیے جانے کے لیے ایک سیاہ کپڑے میں لپیٹ کر لے جایا گیا کہ دیکھنے والوں میں سے کسی کی نظر نہ لگ جائے لیکن پیر صاحب نے اُنھیں دیکھتے ہی کہا: یہ بچّہ شیکسپئر پیدا ہوا ہے۔ ’’ہمارے خاندان میں یہ بات عام مشہور تھی اور بعد میں جب بابا کو اپنی تخلیقات کے ذریعے شہرت اور عزت حاصل ہوئی تو ہمارے لیے اُن کی پیدائش کے فوراً بعد پیر صاحب کی کی گئی بات یقیناًباعثِ حیرت ثابت ہوئی۔‘‘
’’بابا، بہت اچھا کھانا پکاتے تھے، مچھلی، سبزیاں اور کچھ خاص دالیں، جو میں نے اُن کے ہاتھ سے پکی ہوئی کھائیں اُن کا ذائقہ میری زبان سے نہیں اُترا، اس کے مقابل ماما اتنا ہی خراب کھانا پکاتی تھیں، وہ بہت سا کھانا پکاتے اور اپنے دونوں ملازمین اور اپنے لیے بہت سا اکٹھا ہی پکا کر رکھ لیتے …. آخر آخر میں وہ زیادہ تنہائی پسند ہو گئے تھے اور کچھ کچھ خود کلامی کا شکار بھی…. تاہم انھوں نے طویل اور بھرپور زندگی بسر کی، میری بیٹی کی بیٹی کی سالگرہ پر اُسے لکھا کہ دیکھو، تمھارا نانا، کس قدر سخت ہے ابھی تک زندہ ہے۔‘‘ وہ جب لندن میں تھے اور پھر لاہور چلے آئے تو بھی کچھ خاص دوست اُن سے ملنے آتے، محفل جمتی اور ’’خاصی‘‘ بے تکلّفانہ گفتگو ہُوا کرتی، احمد فراز اور ن م راشد سے اُن کی گاڑی چھنتی۔ وہ ایک آدرش وادی انسان تھے۔ بہت سی آرزوئیں، بہت سی تمنائیں رکھتے تھے۔ ایک پُرامن، روادار اور جنگوں سے پاک دنیا کا خواب دیکھتے تھے۔ یہ سارا کچھ ہمیں ان کی تخلیقات میں بھی ملتا ہے۔‘‘
اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جو اس شام میں پورے طور پر بیان نہیں کی جا سکتی ہیں لیکن زندگی رہی تو پھر کبھی سہی، تاہم آج کی یہ محفل مجھے ہمیشہ یاد رہے گی!
واقعی یہ محفل بہت یادگار تھی۔
(بشکریہ:حال حوال ۔۔ کوئٹہ)