گزشتہ روز ان سطور میں یہ گزارش کی گئی تھی کہ پاناما کیس میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف کو اپنی ساری توجہ قانونی معاملات پر صرف کرنے کی غرض سے اپنے عہدے سے وقتی طور پر علیحدہ ہو جانا چاہئے تاکہ امور حکومت بھی متاثر نہ ہوں اور وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی صورت میں سامنے آنے والے شواہد اور ثبوتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے شبہات کا شافی جواب دے کر اپنی بے گناہی بھی ثابت کر سکیں۔ اس طرح وہ بیک وقت ذاتی اور قومی امور میں تقسیم ہوکر اور دونوں میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے، ایک حیثیت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ اور جب سپریم کورٹ ان کے دلائل اور فراہم کردہ شواہد کے سامنے ہتھیار ڈال دے تو وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ سنبھال کر ملک و قوم کی پوری دلجمعی سے خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی عرض کی گئی تھی کہ انہیں استعفیٰ دینے کےلئے اپوزیشن کے احتجاج، الزامات اور مطالبات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر وہ ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ مسلمہ جمہوری روایات کے عین مطابق ہوگا۔ اس طرح وہ ایسے اکلوتے پاکستانی سیاستدان کے طور پر تاریخ میں اپنا نام ثبت کروا سکتے ہیں جنہوں نے سیاسی جاہ پسندی کی بجائے جمہوریت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی تھی۔ تاہم آج نواز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔
اس فیصلہ کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے۔ نواز شریف ایک معمولی سیاسی لیڈر ہیں جو پوزیشن چھوڑ کر مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ اپنی اس صفت کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ وہ ہٹ دھرم ہیں اور سمجھوتہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہوری طریقہ اور عوامی رائے کے جس اصول کا حوالہ دیتے ہوئے بدستور وزیراعظم رہنے پر اصرار کر رہے ہیں، اپنے عمل سے وہ اسے مسترد کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ واضح کرنے کےلئے سیاسیاست کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد الزامات کی وجہ سے اپنے عہدے چھوڑ کر ان کا مقابلہ کرنے والے سیاستدانوں کی مثالیں ہی یہ واضح کرنے کےلئے کافی ہیں کہ جمہوریت اگر لوگوں کے ووٹ لے کر برسر اقتدار آنے کا نام ہے تو یہ بھی اس نظام کا تقاضہ ہے کہ شبہات پیدا ہونے کی صورت میں منتخب شخص فوری طور سے خود کو جوابدہی کےلئے پیش کرتا ہے اور جب تک وہ خود پر لگے ہوئے دھبے صاف کروانے میں کامیاب نہیں ہوتا، وہ سیاسی عہدہ پر فائز رہنے سے گریز کرتا ہے۔ حیرت ہے نواز شریف وزیراعظم کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کےلئے تو یہ دلیل دے رہے ہیں کہ عوام نے انہیں منتخب کیا ہے اور وہی انہیں اس عہدہ سے علیحدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ عوامی حکمرانی کے دیگر پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ وہ جوابدہی کے اصول کو سیاسی نعرے بازی، سازشی نظریئے، جارحانہ حکمت عملی اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر مسترد کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام استوار رکھنے کی راہ میں کئی واضح اور درپردہ قوتیں رکاوٹ بنتی رہی ہیں۔ فوج کی طرف سے بار بار سیاسی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ہے اور نظریہ ضرورت کا نام لیتے ہوئے خوف زدہ عدلیہ کے لالچی ججوں نے ہمیشہ اس آئین شکنی کی توثیق کی ہے۔ اس امکان سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ آئندہ بھی اگر ایسی صورتحال رونما ہوتی ہے اور کوئی فوجی سربراہ منتخب حکومت کو چلتا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو عدلیہ جو بزعم خویش برسر اقتدار وزیراعظم کا احتساب کرکے اپنی خود مختاری کے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کر رہی ہے، اس غیر آئینی حرکت کو ایک بار پھر کسی قومی مفاد کی آڑ میں قبول کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے خلاف قائم قتل اور بغاوت کے مقدموں کے باوصف انہیں ملک سے فرار ہونے کا راستہ اسی سپریم کورٹ نے ہموار کیا تھا جو نواز شریف کو دیوار سے لگا کر اقتدار سے محروم کرنے کے درپے ہے۔ اس کے علاوہ پاناما کیس میں ہونے والی ساری کارروائی کے دوران سامنے آنے والی درخواستوں کو فضول قرار دینے کے بعد قبول کرنا اور پھر سماعت کے دوران ریمارکس اور سوالات کی صورت میں میڈیا ٹاک شوز کو روزانہ کی بنیاد پر مصالحہ فراہم کرنے کا کریڈٹ بھی موجودہ سپریم کورٹ کو ہی دینا پڑے گا جس نے اس مقدمہ کو ایک سنگین اور سنجیدہ مسئلہ کے طور پر طے کرنے کی بجائے، اس کا تماشہ بنانا اور لگانا ضروری سمجھا ہے۔ 20 اپریل کو سامنے آنے والے فیصلہ میں بینچ کے 2 سینئر ارکان نے جو اختلافی نوٹ لکھا ہے اور اس میں جو زبان ، استعارے اور پیرایہ اختیار کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں یہ کہنے کےلئے کوئی ماہر قانون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نہ تو قانون کی زبان ہے اور نہ سپریم کورٹ کے ججوں کے شایان شان ہے۔ اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج ایک منتخب حکومت کے بارے میں اس قسم کا تعصب ظاہر کریں گے تو عام شہریوں کےلئے انصاف کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ اور اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فوری طور سے شائع کرنا بھی ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے سیاسی اثرات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو بھی اس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں سامنے آنے والی قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ اس ملک میں کمیشنز اور جے آئی ٹی کی رپورٹوں کو عام کرنے کا رواج نہیں ہے لیکن ملک کے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی کردار کشی پر مبنی ایک تحقیقاتی رپورٹ کو عام کرنے سے پہلے متعلقہ ججوں نے اس کا مطالعہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ یہ سارے فیصلے سپریم کورٹ کی حرمت اور ججوں کی قوت فیصلہ پر سوالیہ نشان سامنے لاتے ہیں۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ ہی کو اس اہم معاملہ پر فیصلہ بھی صادر کرنا ہے اور کسی بھی شکایت کی صورت میں ہر شخص خواہ وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو، اسی سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو ان غلطیوں سے سیکھنے اور مستقبل میں بہتر رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ان تمام مشکلات اور ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کے باوجود نواز شریف جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں صرف عوام ہی اس عہدہ سے ہٹا سکتے ہیں تو وہ حقیقت بیانی نہیں کررہے ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ 17 جولائی کو سہ رکنی بینچ وزیراعظم کو معزول کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی برطرفی ابھی زیادہ پرانا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی قریب میں ایک بار ملک کا صدر اور ایک بار فوج کا سربراہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے علیحدہ کر چکا ہے۔ یعنی اس سے قبل وہ جب بھی وزیراعظم بنے، انہیں عوام نے منتخب تو کیا تھا لیکن علیحدہ کرنے کا فیصلہ عوام نے نہیں کیا تھا اور نواز شریف کو اسے قبول بھی کرنا پڑا تھا۔ اب بھی تاریخ خود کو دہرا سکتی ہے۔ اب صدر یا فوج کی بجائے عدالت نواز شریف کی معزولی کا فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔ اس لئے ان کےلئے یہ زیادہ باوقار طریقہ ہو سکتا تھا کہ وہ حالات کے اس مرحلہ تک پہنچنے سے پہلے خود ہی علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیتے تاکہ جمہوریت کے خلاف اگر کوئی سازش ہو بھی رہی ہے اور درپردہ اگر کوئی ڈوریاں ہلائی بھی جا رہی ہیں تو وہ ان کے اس جراتمندانہ فیصلہ سے ناکام ہو جاتی۔ لیکن جب تک نواز شریف جیسے لیڈر جمہوریت کو نظام اور طریقہ کار سمجھنے کی بجائے ذاتی اقتدار کی وجہ سمجھتے رہیں گے تو وہ کبھی نہ تو نامور ہو سکیں گے اور نہ ہی اس نظام کو مستحکم کرنے کا سبب بنیں گے جس کی وجہ سے وہ بار بار ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
ماضی میں فوج اور عدالتوں نے جمہوریت پر ضرور شب خون مارا ہے لیکن ہر بار اس ملک کے سیاستدانوں نے ہی انہیں اس بات کا موقع فراہم کیا ہے۔ بار بار اس تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے باوجود ملک کے سیاستدان اس صورتحال کو تبدیل کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ ملک میں پائی جانے والی موجودہ سیاسی تقسیم اس بات کی شاہد ہے کہ سیاستدانوں نے حکومتیں گنوائیں، جیلیں بھگتیں، جلا وطنی برداشت کی اور کردار کشی کا سامنا کیا لیکن اقتدار کی حرص میں انہوں نے بار بار انہی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جو ملک میں عوامی حاکمیت کے عمل کی بجائے غیر منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کا سبب بنی ہیں۔ نواز شریف بھی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے باوجود پارلیمنٹ کو وقت اور احترام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ پاناما کیس صرف اس لئے سپریم کورٹ کے ججوں اور جے آئی ٹی کے ارکان کی دسترس میں آیا ہے کیونکہ انہوں نے اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں حل کرنے سے گریز کیا ہے۔ اگر گزشتہ اپریل میں وہ قوم سے خطاب کرنے یا قومی اسمبلی میں اپنی دولت کے زبانی گوشوارے پیش کرنے کی بجائے، اس حوالہ سے عدالتی کمیشن کے قیام کےلئے پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کر لیتے تو آج گھر گھر گلی گلی ان کے خاندان کا نام مباحث اور مناظرہ کا باعث نہ بنتا۔
یوں بھی ایک سال کافی وقت ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان کا ’’تعصب‘‘ اپنی جگہ لیکن نواز شریف اور ان کا خاندان وہ حساب قوم تو قوم، عدالت کے سامنے پیش کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوا جس کا وعدہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کیا تھا۔ اس برس کے دوران کی جانے والی کوتاہیوں کی ذمہ داری وہ اپنے سوا کسی پر عائد نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کے باوجود نواز شریف بضد ہیں کہ وزارت عظمیٰ سے چمٹے رہنا ان کا جمہوری حق ہے۔ دراصل وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ایک بار اس عہدہ کو چھوڑنے کے بعد وہ شاید دوبارہ سیاست میں واپس نہ آ سکیں اور مسلم لیگ کو پشتینی وراثت بنانے کا جو خواب انہوں نے دیکھ رکھا ہے، وہ شاید پورا نہ ہو سکے۔ انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑا تو پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوا کا رخ دیکھنے والے بہت سے لوگ اور خانوادے زیادہ مضبوط سہاروں کی تلاش میں روانہ ہو جائیں گے۔ اور اگر انہوں نے اپنے بھائی کو جانشین بنا دیا تو ان کی سیاسی وراثت مریم کی بجائے حمزہ شہباز کو منتقل ہو جائے گی۔
یہ خوف ان کے حواس کو شل کئے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ تیزی سے کھائی کی طرف بڑھتے رہنے کا اعلان کر رہے ہیں کہ شاید اس دوران کوئی جھاڑی ان کے ہاتھ آ جائے، تو وہ پوری طرح نیچے لڑھکنے سے بچ سکیں۔ ورنہ اقتدار سے محرومی اور وراثت سے دستبرداری تو نوشتہ دیوار ہی ہے۔ اس رویہ میں جاہ پسندی تو بدرجہ اتم موجود ہے، جمہوریت پسندی کا نام و نشان نہیں ہے۔ اس لئے نواز شریف استعفیٰ نہ دیں تو جمہوریت کا راگ الاپنا تو بند کر دیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ