پی ڈی ایم کی تحریک میں کون کس سے بے وفائی کرے گا اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے جتن روز کیے جاتے ہیں اور ٹاک شوز میں روزانہ اس حوالے سے دھواں دھار گفتگو سننے کو ملتی ہے ۔ جے یو آئی ف میں دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں اور اسی طرح باقی جماعتوں میں بھی اراکین پر کام ہو رہا ہے ۔ لوگ کیسے وفاداریاں بدلتے ہیں اور ساتھ بیٹھے ہوئے بااعتماد لوگ کیسے دھوکہ دیتے ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ آئیں ماضی کے ایک ورق کا مطالعہ کر کے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اپریل 1977ء میں ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک جاری تھی۔ یہ تحریک اسی سال مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاند لیوں کے نتیجے میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کے پاس اگرچہ عوامی قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ انتخابی جلسوں کے دوران بھی وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکے تھے،لیکن اس تحریک کے لیے انہوں نے نظام مصطفی ؐکے نفاذ کا نعرہ بلند کیا۔اور اس تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفی ؐکا نام دیا گیا۔ اسلام کے نام پر اس دور میں بھی لوگوں کے جذبات کے ساتھ اسی طرح کھیلا جاتا تھا جیسے آج کھیلا جاتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں جلاؤ گھیراؤ کا عمل شروع ہوا۔ توڑ پھوڑ اور جلوس جلسے روز کا معمول بن گئے، کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے صرف سٹریٹ پاور کا مظاہرہ ہی تو کافی نہیں تھا۔ اس کے لیے پارلیمانی عدم استحکام پیدا کرنا بھی ضروری تھا۔ پارٹی کے اندر دراڑیں پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے ایجنسیوں نے اپنا کھیل شروع کیا۔ کچھ غلطیاں پیپلز پارٹی کی قیادت سے کرائی گئیں اور کچھ اراکین اسمبلی یا پارٹی رہنما ایسے تھے جو پہلے ہی ایجنسیوں کے اشارے پر نئی منزلوں کی جانب سفر کو تیار تھے۔یہ وہ لوگ تھے جو ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے کس جانب سفر کرنا ہے اور کب وفا داریاں تبدیل کرنی ہیں۔ہوا کے مخالف پرواز کرنا ان پنچھیوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
اپریل کا مہینہ تو اسی قسم کی ناخوشگوار صورتحال میں گذرا۔ کہیں جلاؤ گھیراؤ، کہیں محلاتی سازشیں اور کہیں مذاکرات کی کوششیں۔ 8 اپریل کو بھٹو صاحب نے پارٹی مفادات کے منافی سرگرمیوں کے الزام میں تاج محمد لنگاہ، احمد رضا قصوری اور حامد یسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ (احمد رضا قصوری بعد ازاں اُس مقدمے کے مدعی بنے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا)۔ 12 اپریل کو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل مبشر حسن استعفیٰ دے گئے۔ اسی روز ملتان سے پی پی کی خاتون رہنما فخر النساء کھوکھر پارٹی رکنیت سے مستعفی ہوئیں۔ اگلے روز ایجنسیوں نے اسمبلیوں میں کھیل شروع کیا۔ پنجاب اسمبلی سے بھٹو حکومت کے خلاف پہلا استعفیٰ چوہدری اعتزاز احسن نے دیا۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی حکومت میں صوبائی وزیر قانون کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ جواز انہوں نے یہ بنایا کہ 9 اپریل کو لاہور میں مظاہرین پر جو فائرنگ کی گئی اس میں بیورو کریسی نے ان کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ اُسی روز پنجاب اسمبلی سے عبدالحفیظ کاردار اور قومی اسمبلی سے سردار احمد علی بھی مستعفی ہوئے۔ بوری میں سوراخ کرنے کی دیر تھی ایک ایک کر کے ارکان اسمبلی کے استعفے آنے لگے گویا کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے تھے۔ اسی دوران بھٹو صاحب نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سردار شوکت حیات کو بھی پارٹی سے نکال دیا۔ دوسری جانب سڑکوں پر تحریک بھی چلتی رہی۔ اور تحریک کے دوران غیر ملکی کرنسی خاص طور پر ڈالر کی فراوانی ہو گئی۔
آپ نے اس تحریر میں پیپلز پارٹی سے بے وفائی کر نے والوں میں بہت اہم نام پڑھے ہیں خاص طور پر ڈاکٹر مبشر ، اعتزاز اور فخر النساء کھوکھر کے نام ۔ لطف یہ ہے پارٹی ان بے وفاؤں کے خلاف کارروائی بھی نہ کر سکی آنے والے برسوں میں اسی پارٹی نے اعتزاز احسن کو وزیر داخلہ بنایا اور فخر النساء کھوکھر کو ہائی کورٹ میں جج کا منصب عطاء کیا گیا ۔ یہی ہوتے ہیں پاکستانی سیاست کے رنگ ۔۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز ۔۔اسلام آباد )