جب سے پیدا ہوئے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے لیکن جب پیسے خرچ کرنے شروع کیے تب معلوم ہوا کہ ہر چیز پر ہم ٹیکس کی مد میں کافی سارے پیسے دے رہے ہیں۔ سوئی سے لیکر ہوائی جہاز تک، اور ٹافی سے لیکر ٹافی بنانے والی فیکٹری تک، ہر چیز پر یہاں لوگ ٹیکس دیتے ہیں یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ میں کوئی چیز خریدوں اور اس پر ٹیکس دوں کہ میں نے کار خریدی ہے تو مجھ سے ٹیکس لیا جائے کیونکہ میں ایک آسائش استعمال کر رہا ہوں۔ لیکن جس ٹیکس کی عام طور پر بات کی جاتی ہے وہ انکم اور پراپرٹی ٹیکس ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ میں جو بھی کماتا ہوں اس میں سرکار کا کتنا اور کیا کردار ہے؟ کیونکہ جو لوگ سرکاری یا کسی بڑی پرائیویٹ فرم میں نوکری کرتے ہیں وہ تو بیچارے یہ ٹیکس ادا کرنے سے بچ ہی نہیں سکتے کیونکہ انکی تنخواہوں میں سے ٹیکس کی کٹوتی پہلے ہی ہوجاتی ہے۔ باقی رہ گئے زمیندار، بزنس مین، کسان اور مزدور تو زمیندار بھی ایگریکلچر ٹیکسوں کی مد میں کافی بڑی رقم سرکار کو جمع کراتے ہیں بزنس مین سے تو پوچھیے ہی مت ۔۔ نہ جانے کس کس طرح کا بھتہ ان سے ٹیکس کے نام پر نہ جانے کون کون وصول کرتا ہے اور اگر بزنس مین کامیاب کاروبار کا مالک ہو تو اسکو اپنے خاندان کو زندہ و سلامت رکھنے کے لیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔
سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ اس ملک کا ایک عام آدمی ٹیکس کیوں دے؟؟ کیونکہ جن ملکوں میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں وہاں انکو کئی طرح کی سہولیات فراہم جاتی ہیں اگر کوئی بیمار ہو تو اسکا علاج یہ کہہ کر نہیں روکا جاتا کہ تمھارے پاس پیسے نہیں ہیں لہذا تم مرتے ہو تو مر جاؤ۔۔ اگر کوئی بیروزگار ہے تو اسکو بیروزگاری الاؤنس یعنی (dole money) بھی ملتی ہے جس میں اس کا اور اسکے خاندان کا علاج، تعلیم، رہائش اور ہفتہ وار خرچ شامل ہوتا ہے یورپ اور براعظم امریکہ کے کئی ملکوں میں سکول فیس کا کوئی تصور نہیں ہے اگر سڑک پر کھڈا ہے اور آپکی کار اس کھڈے میں لگنے سے ڈیمیج ہوگئی ہے تو سمجھیے کہ آپکی لاٹری نکل آئی ہے کیونکہ اب حکومت آپکی کار تو ٹھیک کرائے گی ہی بلکہ آپکو جو ذہنی اذیت پہنچی ہے اسکا ازالہ بھی کیا جائے گا۔ تمام ٹیکس پیئر نیشنز میں اولڈ ہاؤسسز کسی قسم کی اجرت اپنے رہنے والوں سے وصول نہیں کرتے، جو صاحبِ استطاعت ہیں وہ علاج پیسوں سے کراوتے ہیں جو غریب ہے وہ سرکار کی ذمہ داری ہے، انسانی حقوق کی پاسداری عالم یہ ہے کہ آپ کسی کے خلاف جارحانہ حرکت تو دور کی بات کسی مرد یا عورت کو گھور تک نہیں سکتے ۔ جہاں یہ صورت حال ہو وہاں کون ٹیکس نہیں دینا چاہے گا جبکہ اس کو یہ یقین ہو کہ ایک تو جو میں ٹیکس دے رہا ہوں وہ میری فلاح کے لیے ہی خرچ ہوگا اور اگر کل کو میں کسی بھی قسم کی مصیبت کا شکار ہو گیا تو ریاست میرے ساتھ ویسے کھڑی ہوجائے گی جیسے خاندان کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔
اب آئیے اس معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں میں بہت دیر سے یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر میں یہاں پر رہتے ہوئے ٹیکس دوں تو مجھے اسکے بدلے میں ایسا کیا ہے جو مل رہا ہے تو دماغ میں صرف ایک چیز آئی وہ ہے سڑک اور سڑکیں بھی وہ جو اندرون شہر میں ہیں کیونکہ ہائی وے اور موٹر وے پر تو ہم بھاری بھرکم ٹول دے کر سفر کرتے ہیں اور اندرون شہر بھی سڑک اسکے لیے فری ہے جو ننگے پاؤں سڑک پر پھر رہا ہو کیونکہ اگر کوئی پاؤں میں چپل لیے یا سائیکل، بائیک یا گاڑی پر گھوم رہا ہے تو اس نے کسی نہ کسی مد میں ٹیکس دیا ہوا ہے ابھی کچھ دن پہلے تک سرکاری ہسپتالوں سے چند دوائیں اور نا قابلِ بھروسہ قسم کے ٹیسٹ فری میں ہوجایا کرتے تھے اس موجودہ حکومت نے وہ بھی بند کر دیئے ہیں باقی اگر کسی کے ذہن میں کوئی ایسی چیز یا سہولت ہو جو کہ اس ملک کے شہریوں کے لیے مفت ہو تو مجھے ضرور بتائیں۔مہذب دنیا کی حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے کاروبار اور ملازمت کو آسان سے آسان بنانے کی ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہیں لوگوں کو انکی مرضی کا کام کرنے کے بے شمار مواقع فراہم کئے جاتے ہیں کیا آپ پاکستان میں رہتے ہوئے یہ سوچ بھی سکتے ہیں کہ آپ میں یا آپکے بچے میں ایک ایتھلیٹ بننے کی بھرپور صلاحیت ہے تو اس کو کیرئیر بنا لیا جائے؟ سب سے پہلے آپ کے اپنے گھر والے آپکو ایسا نہیں کرنے دیں گے اور یہ سوچ کر نہیں کرنے دیں گے کہ اگر کھیلو گے تو کماؤ گے کیا؟ اسی طرح ایک رائٹر، شاعر، گلوکار، اداکار، میوزیشن، مجسمہ ساز، یہاں تک کہ ایک سائنسدان کے پاس آپکے ملک میں ایک آسودہ زندگی گزارنے کے کتنے مواقع موجود ہیں ابھی ہم نے دیکھا کہ ایک شخص نے اپنے ذرائع استعمال کرکے ایک جہاز بنا کر اڑا دیا تو اسکے ساتھ یہاں کی انتظامیہ نے کیا سلوک کیا ہماری حکومتیں چاہے وہ جمہوری و سیاسی تھیں یا عکسری سب کا فوکس ہمیشہ ایک بات پر رہا ہے کہ عوام کی زندگی کو مشکل سے مشکل کیسے بنایا جائے؟ اس کی مثال اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ کسی بھی لیگل کام سے کسی بھی سرکاری دفتر میں جاکر دیکھ لے ہاں اللیگل کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔۔کسی نے کہا تھا کہ ہمارے سرکاری ملازمین ہڈحرامی کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔۔جس ریاست میں عوام اور حکومت باہمی تصادم کا شکار ہوں وہاں پر لوگ ریاست کو اپنا دشمن تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں ہم نے عام طور پر یہ دیکھا ہے کہ ہم سرکاری چیز کو اپنا نہیں سمجھتے یا تو اس پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں یا اسکو اتنا برباد کر دیتے ہیں کہ وہ کسی اور کے استعمال کے قابل نہ رہ سکے کیونکہ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے پیسے لوٹ کر بنائی گئی ہے۔۔
آئیے اب ذرا اس حکومت کی بات کرتے ہیں ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں نے ہمیں اسد عمر صاحب کے عظیم ماہر معاشیات ہونے کے وہ وہ قصے سنائے تھے کہ ہمیں یہ لگتا تھا کہ ان صاحب کے کرسی پر بیٹھتے ہی اس ملک میں معاشی انقلاب آجائے گا کیونکہ اسد عمر اسمبلی میں کھڑے ہو کر اس تیقن کے ساتھ ملکی مسائل کا حل بتاتے تھے کہ واقعی دل کرتا تھا کہ اگر مسائل اتنے ہی سادہ ہیں تو یہ حکومتیں جو کام نہیں کرتیں ان پر انسان لعنت بھیج دے، لیکن ہوا کیا ہوا یہ کہ آج پاکستان میں انوسٹمنٹ تو ایک طرف پاکستان کو کہیں سے قرضہ ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے وہ عمران خان جو کل تک کہتے تھے کہ لوگ پاکستان میں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے آج کہیں سے قرضہ مل جانے کو خوشخبری کہتے ہیں کل تک جو لوگ ایمنیسٹی سکیمز اور پلی بارگین کو کرپشن کہتے تھے آج خود پلی بارگین اور ایمنیسٹی سکیمز لا رہے ہیں ملک میں ہر چیز کی قیمت دو گنا ہو چکی ہے اور ابھی تو اس حکومت نے پہلا با ضابطہ بجٹ بھی پیش نہیں کیا۔۔جنابِ اسد عمر کا فوکس اس وقت یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے لیکن میرا سوال پھر وہیں کا وہیں ہے کہ کیوں میں آپکو ٹیکس دوں؟ جبکہ میں ہر استعمال کی شے پر پہلے ہی ناجائز ٹیکس دے رہا ہوں جس کی ایک مثال بجلی کے بلوں میں نظر آتی ہے بجلی کے بلوں میں کئی ٹیکس لاگو کیے گئے ہیں انہی میں ایک ٹیکس ہے جس کا نام ہے “مذید ٹیکس” جہاں اس پر ہنسی آتی ہے وہیں غصہ بھی آتا ہے
ابھی چند دن پہلے جنابِ وزیر خزانہ نے معیشت کی بحالی کے لئے قوم سے تجاویز مانگی تھیں تو حضور سنیے لوگوں سے ٹیکس مانگنے سے پہلے آپ انہیں یہ بتائیے کہ جو ٹیکس آپ مانگ رہے ہیں اس کے بدلے میں آپ قوم کو کیا دیں گے کیونکہ اس وقت تک صورتحال یہ ہے کہ سرکار عوام کو کچھ نہیں دے رہی ریاست عوام کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو ایک سامراج اپنے محکوموں کے ساتھ کرتا ہے۔ جس رفتار سے آپ چیزیں مہنگی کر رہے ہیں تو آپ بھول جائیں کہ لوگ آپکے ساتھ تعاون کریں گے اور سچ پوچھیں تو لوگوں میں تعاون کرنے کی سکت بھی نہیں ہے۔۔ ایک طرف آپ نے مہنگائی کا طوفان برپا کر رکھا ہے دوسری طرف ملک دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے، انوسٹر نے پیسہ مارکیٹ سے واپس اٹھا لیا ہے، اور اس سب کا بوجھ صرف عوام اٹھا رہی ہے ایسے میں کہ جب لوگوں کے بچے بھوکے مر رہے ہوں آپکے وفاقی وزیر لوگوں کو سبز باغ دکھا رہے ہیں تو حضور آپ اور آپکی کابینہ دراصل انارکی پھیلا رہی ہے۔۔۔ کیوں آپ اور آپکے ساتھی قوم کو صحیح بات نہیں بتاتے کیوں آپ اپنی نا لائقی کو تسلیم نہیں کرتے آپ کی اب تک کی پرفارمنس صرف یہ بتاتی ہے کہ یا تو آپ نا اہل ہیں یا آپکی تیاری صفر ہے ویسے تو دونوں باتیں ٹھیک ہیں۔۔۔
اسد عمر صاحب میں آپکو بتانا چاہتا ہوں کہ لوگوں میں حرام حلال کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ اگر کسی کا بچہ بھوک سے اسکی گود میں اسکی آنکھوں کے سامنے مر رہا ہو تو وہ یہ بھول جائے گا کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا جائیے جا کر دیکھیے کہ پولیس اسٹیشنز میں کس قسم کی شکایات موصول ہو رہی ہیں، اناج چوری کیا جارہا ہے ایک ایس پی کے ریڈر کے بقول 1990 کی دہائی کے اوائل کے بعد اب دوبارہ اناج کی ڈکیتیوں کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں میں جنابِ وزیر خزانہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قحط شروع ہو چکا ہے اب قصور وار جو بھی ہے آپ یہ وعدہ کر کے آئے تھے کہ آپ اکانومی کو اپنے پیروں پر واپس کھڑا کریں گے آپ کے وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ ہم عوام پر کسی قسم کا بوجھ نہیں پڑنے دیں گے لیکن آپ نے ہر طرح کا بوجھ عوام پر ہی ڈال دیا ہے مہنگائی برداشت کرے تو عوام، ٹیکس دے تو عوام، ڈیم کا چندہ دے تو عوام جبکہ آپ کو یہ فکر لاحق ہے کہ بلاول اپنے نام کے ساتھ بھٹو کیوں لکھتا ہے زرداری کیوں نہیں؟ آپ بھوکے ننگے لوگوں پر مشتمل معاشرے سے تعاون کی امید کس بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ آپکے وزراء اعلی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے لیے بے چین ہیں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کی حکومت نہ تو کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہے اور نہ ہی لوگوں کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں، وزیراعظم کی حد تک تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس وقت انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں انکا ایک مقصد ہے نواز شریف اور زرداری کو سزا دلوانا جو کہ پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ لوگوں پر توجہ کریں گے تو آپکو یہ اوچھی حرکتیں بھی نہیں کرنی پڑیں گی اور شاید لوگ آپ پر بھروسہ بھی کرنا شروع کر دیں ورنہ شاید دنیا آپکو ان سے بھی بُرے الفاظ میں یاد کرے گی جن سے وہ آپ کے والد کو یاد کرتی ہے۔۔۔