قارئین کرام جیسا کہ آپ جانتے ہم جیسے صحافیوں اور کالم نگاروں کو دور حاضر میں صرف ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے۔ ”لفافہ“ ایسے بہتانوں کا کبھی میں نے سوشل میڈیا پر جواب دینا پسند نہیں کیا لیکن ضمیر پر بہت بوجھ ہے۔ آج دل کی بات قارئین سے کہنے کو دل چاہ رہا ہے۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں میں خالص ادبی افسانے لکھا کرتا تھا۔ کتاب چھپوا کر خود ہی دوستوں میں تقسیم کر دی جاتی۔ نہ کوئی آمدن ہوتی نہ پذیرائی۔ وہی حال ہوتا جو اس ملک میں بیشتر ادیبوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے توجہ کالم نگاری کی طرف دلوائی۔
ابتدائی کالم ادبی اور سماجی موضوعات پر لکھے۔ جس سے بیمار کی طبیعت میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ایک جید کالم نگار سے مشورہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ”بیٹا سیاست پر لکھا کرو۔ اس کام میں بہت برکت ہے“۔ ابتداء میں طبیعت اس طرف نہیں آئی۔ سیاست کی کوئی خاص سوجھ بوجھ بھی نہیں تھی پھر بھی لکھتا رہا۔
سیاسی کالم نگاری سے پہلا فرق تو یہ پڑا کبھی کبھار کسی وزیر باتدبیر یا سینیٹر کا فون آ جاتا تھا۔ جو کالم کی تعریف اس توقع سے کرتے تھے کہ اگلے کالم میں کہیں ان کا بھی ذکر اذکار ہو جائے۔ معاملات زندگی اسی طرح چلتے رہے کہ اچانک پانامہ کا قضیہ میڈیا میں اٹھا۔ اچانک کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی باتیں اہم ہو گئیں۔ بعض اوقات تو یوں لگتا تھا جیسے ملک کے تمام لوگ انہی تجزیہ کاروں کے تجزیوں کے منتظر ہیں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ملک کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ حکومتیں گر سکتی ہیں۔ ایوان لرز سکتے ہیں۔
انہی دنوں میں سے ایک مبارک دن دروازے پر گھنٹی بجی۔ میں ہاتھ میں دودھ کی دیگچی لئے دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازے پر ایک سات فٹ کا لمبا تڑنگا سیاہ فام جوان کھڑا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے بڑے ادب سے سلام کیا اور میرے کان میں کہا۔ ”میاں صاحب آ رہے ہیں“ ہمارے محلے میں ایک میاں صاحب رہتے ہیں جن کی نظر ہمیشہ محلہ کمیٹیوں اور بہو بیٹیوں پر رہتی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ کہ میری کسی خطا کی سرزنش کے لئے محلے والے میاں صاحب آ رہے ہیں۔
ایسے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ”وڈے میاں صاحب“ بڑی سی سنہری گاڑی میں تشریف لا رہے ہیں۔ میرے تو ہاتھ پاوں پھول گئے۔ کیسے خاطر مدارت کروں گا۔ دودھ والا ابھی تک آیا نہیں تھا چائے کیسے بنے گی؟ میاں صاحب نے اس صورت حال کو بھا نپ لیا۔ نہایت شفقت سے بولے ”چائے میں پی کر آیا ہوں“۔ کہنے لگے ”آپ کے کالم ملک کی سیاست کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ پانامہ کے کیس پر پی ٹی آئی کے لونڈوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے۔ ذرا اپنے کالم میں دھیان رکھیے گا“۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے سات فٹ لمبے نوجوان کو اشارہ کیا جس نے ایک چرمی بریف کیس میرے سامنے رکھ دیا۔ میاں صاحب نہایت شفقت سے کہنے لگے بریف کیس میں بھابھی اور بچوں کے لئے کچھ تحائف ہیں۔ قبول کریں۔ میاں صاحب نے پیار سے گلے لگایا اور یہ جا اور وہ جا۔ میں سکتے کی حالت میں بریف کیس کو دیکھتا رہا۔ بہت ہمت کر کے بریف کیس کو کھولا تو امریکی ڈالروں سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ حیرت گم ہو گئی۔ سمجھ نہ آئے کہ اتنے پیسے کہاں رکھوں۔
بینک میں جمع کروانے کا حوصلہ نہ ہوا۔ زندگی میں پہلی بار ٹیکس والوں سے خوف آنے لگا۔ بہت سوچ کر ایک چادر میں بریف کیس کو لپیٹ کر صوفے کے نیچے رکھ دیا۔ ساری رات نیند نہیں آئی۔ صبح کا مبارک وقت تھا کہ کاغذ قلم سنبھالا۔ میاں صاحب کی شان اقدس میں ایک کالم لکھا۔ جس میں پانامہ کا کیس اٹھانے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ میاں صاحب کے شان میں وہ قلابے ملائے کہ زمین آسمان ایک ہو گئے۔ میاں صاحب کی خوشنودی کی خاطر کالم میں بار بار احتساب کو ایک عالمگیر سازش قرار دیا۔
جس دن کالم چھپا۔ علی الصبح دروازے کی گھنٹی بجی۔ اس دفعہ میں ذہنی طور پر تیار تھا اس لئے ہاتھ میں دودھ کی دیگچی نہیں پکڑی۔ وہی لمبا تڑنگا نوجوان دروازے پر حاضر تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک اور بریف کیس تھا۔ میرے کان کے پاس آکر کہنے لگا ”میاں صاحب نے بھیجا ہے۔ اور وہ کالم سے بہت خوش ہو ئے ہیں۔ انہوں نے کچھ اور کلائنٹس بھی آپ کی طرف بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بس آپ اپنا مشن جاری رکھیں“۔ بس پھر کیا تھا روز کالم لکھنا شروع کر دیا۔ روز روز بریف کیس آنے لگَے۔ گھر بار کے حالات بدل گئے۔ مجھ ناچیز کو خدا نے چھپر پھاڑ کر دیا۔
یہ سب باتیں تو راز کی ہیں لیکن آج قارئین سے کچھ نہیں چھپاوں گا۔ ایک دن ”ڈار صاحب“ آئے۔ بہت گھبرائے ہو ئے تھے۔ کہنے لگے یہ میری گلبرگ کی کوٹھیوں اور دبئی میں جائداد کا بہت شور مچا ہے آپ سے مدد کی درخواست ہے۔ میں اب تک اپنے کام میں طاق ہو چکا تھا۔ میں کہا ”ڈار صاحب“ تسلی سے تشریف رکھیں۔ کچھ سوچتے ہیں۔ اس اثنا میں، میں نے کن اکھیوں سے دیکھ لیا تھا کہ ڈار صاحب کے ملازم کے دونوں ہاتھوں میں بریف کیس تھے۔
بس پھر کیا تھا ایسا کالم لکھا کہ ڈار صاحب سب مشکلات سے آزاد ہو گئے۔ بیرون ملک جانے کا مشورہ بھی میں نے ہی اپنے کالموں میں دیا تھا۔ فرضی بیماری کا بہانہ بنا کرانگلینڈ کے ہسپتال میں داخل بھی خاکسار کے مشورے پر ہوئے تھے۔ ”ڈار صاحب“ جہاں بھی گئے وفا نبھاتے رہے۔ بریف کیس آتے رہے۔ ایک دن ”چھوٹے میاں صاحب“ بھی آ ہی گئے کہنے لگے یہ حدیبیہ کا قصہ تو ختم کروا دیں۔ میں نے کہا سوچتے ہیں۔ ”چھوٹے میاں صاحب“ جہاں دیدہ آدمی ہیں بات سمجھ گئے۔ ملازم کو آواز دی اس نے ڈالروں کی گڈی میرے سامنے رکھ دی۔ مجھے بریف کیس کی عادت تھی اس لئے میں نے ”چھوٹے میاں صاحب“ کی سونے کی گھڑی کی اتنی تعریف کی کہ ان سے وہ گھڑی اتارتے ہی بنی۔
بس پھر کیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے وزیر بھی آنے لگے۔ ایک دن چھوٹے چوہدری صاحب آئے۔ بے چارے توہین عدالت میں دھر لئے گئے تھے۔ نئی لینڈ کروزر لشکارے مار رہی تھی۔ میں کہا کام تو ہو جائے گا لیکن۔ ۔ ۔ خیر بیچارے لینڈ کروز چھوڑ کر ”کریم ٹیکسی“ پر گھر سے روانہ ہوئے۔ نوجوان کالم نگارو۔ یاد رکھو چھوٹے وزیروں کے لفافے بڑے وزیروں سے زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ کوئی دو کنال کا پلاٹ پیش کرتا کوئی بھابھی کے لئے ہیروں کا ہار۔
کوئی انٹرنیشل ٹور کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ کوئی دبئی میں بنگلہ دلواتا ہے۔ قلم کی طاقت اتنی بڑھی کے دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی رابطے شروع کر دیے۔ ان سے معاملات طے ہونے میں کچھ دشواری ضرور ہوئی لیکن لگن سے کام کیا جائے تو سب ممکن ہے۔ اب تو کئی سیاسی جماعتیں اپنی باری کی منتظر رہتی ہیں۔ دل ہی دل میں دعا کرتی ہیں کہ کب خاکسار کی نظر ان پر پڑ جائے اور سب دلدر دور ہو جائیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت آج کل میڈیا کے عتاب میں ہے۔ جس کو دیکھو منہ اٹھا کر ان پر تنقید کر دیتا ہے۔ ایسے میں انہیں کچھ تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے۔ ان کے لئے خاکسار کا بس یہی پیغام ہے کہ ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔
قارئین۔ چند برسوں میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ قلم میں کتنی طاقت ہے۔ لفظ کے ہنر کیا کیا ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیں میری کیا سے کیا حالت ہو گئی۔ کہاں وہ مفلوک الحال افسانہ نگار اور کہاں خاکسار۔ اب الحمد اللہ معاملات ایسے سدھر گئے ہیں کہ اب میرے پاس بحریہ ٹاون سے زیادہ پلاٹ اور ڈی ایچ سے زیادہ زمین ہے۔ میں اپنے تمام لکھاری دوستوں سے یہی کہوں گا کہ کالم نگاری کی طرف آئیں کیونکہ اس کام میں بڑی برکت ہے۔
نوٹ۔ یہ تصوراتی کالم ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جو ہر مختلف سوچ والے صحافی کو لفافہ سمجھتے ہوئے نت نئے خواب دیکھتے ہیں۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ