آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ٹیکنالوجی کو معلومات کی ترسیل کا اہم ذریعہ قرار دینے کے باوجود واضح کیا ہے کہ یہی ٹیکنالوجی غلط اور بے بنیاد معلومات عام کرنے کا بھی سبب ہے۔ اسلام آباد میں ’امن اور استحکام میں پاکستان کا کردار‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آزادی اظہار پر قانونی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اور متنبہ کیا کہ بصورت دیگر ’غلط اور گمراہ کن معلومات اور نفرت انگیز باتیں ملک کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو کمزور کرتی رہیں گی‘ ۔
مارگلہ ڈائیلاگ 2024 کی خصوصی تقریب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے علاقائی ہم آہنگی اور بین الاقوامی امن کو آگے بڑھانے میں پاک فوج کی نمایاں کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں دنیا کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیزی سے پھیلاؤ ایک اہم چیلنج ہے۔ عالمی سطح پر معیشت، افواج اور ٹیکنالوجی میں بے انتہا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پرتشدد غیر ریاستی عناصر اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے جہاں معلومات کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں گمراہ کن اور غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی بڑا چیلنج ہے۔
جنرل عاصم منیر نے دہشت گردی اور بھارتی انتہاپسند نظریے پر بات کرنے کے علاوہ عالمی امن مشن میں پاک فوج کی خدمات کا ذکر بھی کیا۔ انہوں نے ماحولیات کے حوالے سے بھی بات کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات کا بھی حوالہ کیا۔ تاہم ان کی گفتگو کا فوکس غلط معلومات کی ترسیل اور اس کے سماج و سیاست پر منفی اثرات پر تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ پابندیوں اور مناسب قدغن کے بغیر آزادی اظہار معاشرے کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کی باتیں سن کر اور ان کی طرف سے ’ڈٹے رہنے‘ کے عزم کا اعلان جان کر یہ سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی جا سکتی کہ جنرل عاصم منیر معلومات کی بلا روک ٹوک ترسیل کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے۔
پاک فوج کے سربراہ اس سے پہلے بھی غلط معلومات کی ترسیل اور اس کے اداروں، افراد اور ریاست پر مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد انہوں نے تسلسل سے ملک میں آزادی اظہار کو کنٹرول کرنے کی بات کی ہے۔ ایک موقع پر تو انہوں نے آزادی اظہار کے آئینی حق کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہی آئین غلط معلومات کی ترسیل پر پابندی لگانے کی بات بھی کرتا ہے۔ تاہم ایک ایسے ماحول میں آرمی چیف کی باتیں تشویش کا سبب ہیں جب ملک میں منتخب حکومت کے بارے میں شبہات موجود ہیں، پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سیاسی احتجاج منظم کیا جا رہا ہے اور مواصلت کے متعدد ایسے پلیٹ فارم جو پوری دنیا میں کسی رکاوٹ اور پریشانی کے بغیر کام کر رہے ہیں، پاکستان میں انہیں نت نئی پابندیوں کا سامنا رہتا ہے۔
انٹر نیٹ اور موبائل سروس جیسی بنیادی سہولتیں اب جدید زندگی کا معمول بن چکی ہیں۔ انسانی زندگی میں ان دونوں کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان میں کبھی کسی سیاسی احتجاج یا ریلی کے عذر پر اور کبھی گمراہ کن پروپیگنڈا کی روک تھام کے نام پر ان سروسز میں تعطل معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ کافی عرصہ سے ملک میں سست رو انٹرنیٹ ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان پابندیوں سے حکومتی ادارے کچھ غلط معلومات کی ترسیل روکنے میں کامیاب بھی ہوتے ہوں لیکن ان پابندیوں سے زیادہ تر عام شہری اور اہم خدمات سے وابستہ لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں کسی پابندی کے منفی مالی اثرات کا جائزہ لینے کا کوئی خاص رواج موجود نہیں ہے ورنہ یہ اعداد و شمار جمع ہونے چاہئیں کہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندی لگانے یا رکاوٹ ڈالنے سے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں کس حد تک متاثر ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے دو پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو نظام پوری دینا میں کسی مسئلہ کے بغیر کام کر رہا ہے اور درست معلومات کے ساتھ غلط معلومات کو مسترد کرنے کے طریقے بھی ایجاد کر لیے گئے ہیں۔ وہی نظام پاکستان میں کیوں کام نہیں کر سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کی چند انتہائی رجعت پسند اور آمرانہ نظام حکومت میں کام کرنے والی ریاستوں کی طرح پاکستان میں ٹیکنالوجی کو عوام اور انسانیت کا دشمن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے؟ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہ اعتراف کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج نما پروپیگنڈے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بجائے ’فوجی آمریت‘ مسلط ہے جو ایک نام نہاد سول حکومت کی آڑ میں جمہوریت سمیت شہری آزادیوں کی دشمن ہے۔ ہم مان لیتے ہیں ملک میں آئینی جمہوریت ہی کام کر رہی ہے۔ لیکن جب اس جمہوری نظام میں مواصلت کے تمام جدید طریقوں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی اور ان کے بارے میں شہریوں یا عدالتوں کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے اس بات پر اصرار کیا جائے گا کہ اسی میں قوم و ملک کی بھلائی ہے تو پھر اس طریقے کو کس دلیل سے جمہوری یا آئینی قرار دیا جا سکے گا؟
اسی مباحثہ کا دوسرا پہلو عملی صورت حال سے متعلق ہے۔ ٹیکنالوجی کے معاملے میں پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ جدید مواصلاتی ذرائع کی وجہ سے دنیا کے کسی دور دراز خطے میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا معاملہ کی خبر لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ کوئی حکومت ایک خاص جغرافیائی حد میں کسی ٹیکنالوجی پر پابندی لگا کر ضرور اس گمان میں مبتلا ہو سکتی ہے کہ اب بری خبروں کی ترسیل کو روک لیا گیا ہے۔ لیکن واضح ہونا چاہیے کہ یہ گمان بے بنیاد ہے۔ اگر حکومت پاکستان میں یوٹیوب، انسٹا گرام یا کسی دوسرے میڈیم کے ذریعے معلومات عام کرنے پر پابندی لگائے گی تو وہی معلومات کسی دوسرے ملک سے انہیں پلیٹ فارمز پر عام کی جا سکتی ہیں اور پاکستان میں ان کی ترسیل کو روکا نہیں جاسکتا۔ پاکستان میں تمام تر احتجاج اور اعتراض کے باوجود ایکس پر مسلسل پابندی ہے۔ البتہ متعدد صارف اسے وی پی این کے ذریعے استعمال کرتے رہے ہیں۔ البتہ اب حکام اس ٹیکنالوجی پر بھی پابندی لگانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پابندیاں سرعت سے پھیلتے ہوئے تکنیکی امکانات کو محدود کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت بھی آرمی چیف یا دیگر سرکاری ذرائع جن معلومات یا مواد کو زہریلا اور مخرب اخلاق قرار دیتے ہیں، وہ زیادہ تر امریکہ یا دیگر مغربی ممالک سے نیٹ پر ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کب تک ان معلومات کا راستہ روکے گی؟ اگر ایک راستہ بند کیا جائے گا تو ٹیکنالوجی دوسرا راستہ تلاش کرتے دیر نہیں لگائے گی۔
دنیا نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پابندیوں کی بجائے لوگوں میں اچھے برے کی تخصیص کی صلاحیت پیدا کرنے پر زور دیا ہے تاکہ عوام خود ہی فیصلہ کرسکیں کہ کون سا مواد ان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہے اور کسے بے بنیاد اور گمراہ کن سمجھ کر مسترد کر دیا جائے۔ اگر یہ درست ہے کہ کہ کسی ٹی وی پروگرام یا ویب سائٹ پر مواد پر کنٹرول کا تو کوئی طریقہ موجود نہیں ہے لیکن ہر گھر میں ٹی وی اسٹیشن کا ریموٹ کنٹرول یا ویب پر جانے کا طریقہ ہر فرد کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ایک بٹن دبا کر چینل بدلنا نہایت آسان ہے۔ اسی طرح ناموزوں سائٹ کو اپنے سرور پر بلاک کر دینا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اس مثبت اور علمی طریقہ کو اختیار کرنے کی بجائے پابندی لگانے اور قومی مفاد کی دہائی دینے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ شور و غل سن کر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار شاید اکیسویں صدی میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ وہ اب بھی پابندیاں لگانے اور کنٹرول کرنے کی اسی زبان میں بات کرتے ہیں جو کئی دہائی پہلے تو کارگر تھیں لیکن اب ناکارہ ہونے کی وجہ سے متروک ہو چکی ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ نہ صرف کوئی خاص معلومات عام کرنے یا وصول کرنے پر پابندی لگانا حکومت اپنا حق سمجھ رہی ہے بلکہ ’ناپسندیدہ‘ معلومات بھیجنے یا شیئر کرنے کے الزام میں شہریوں کو ہراساں کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن کے تحت کوئی ’غلط‘ پیغام بھیجنے یا سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے یا شیئر کرنے جیسے ’جرم‘ پر پکڑ دھکڑ کی جاتی ہے اور لوگوں کو قید کیا جاتا ہے۔ یہ طریقے لوگوں کے تجسس کو کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرتے ہیں۔ غلط یا منفی معلومات کی ترسیل کے حوالے سے صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے عام کرنے والوں کے مقابلے میں ان پر پابندیاں لگانے والے عوام میں تجسس پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ کسی بھی طریقے سے ’ممنوعہ‘ خبر یا اطلاع تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
جدید مواصلاتی نظام میں پابندی لگانا ایک بے مقصد کوشش بن چکی ہے۔ کوئی حکومت چاہے تو دیوانے کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتی رہے لیکن اس سے سے معلومات کی فراہمی کو روکنا ممکن نہیں ہو سکتا ۔ پابندیوں کی بات کرنے کی بجائے افہام و تفہیم، احترام اور بقائے باہمی کا جذبہ عام کیا جائے۔ ایک غلط کے مقابلے میں دوسری غلطی کر کے اس کی شدت میں اضافہ کرنے کی بجائے جھوٹی باتوں کے مقابلے میں مثبت اور تعمیری معلومات عام کرنے کے طریقے اور پلیٹ فارم تلاش کیے جائیں تاکہ ایک دائرے میں بھاگنے کے کار لاحاصل سے جان چھڑائی جا سکے۔ جنرل عاصم منیر نے تمام باتیں ضرور جذبہ حب الوطنی اور عوام کی محبت میں کی ہوں گی لیکن ایک تو انہیں سیکھنا چاہیے کہ وہ جو طریقہ علاج تجویز کر رہے ہیں، وہ کارآمد نہیں رہا۔ تاآنکہ پاک فوج ملک میں انٹر نیٹ اور موبائل مواصلت کا نظام بند کر کے ملک کو ایک سو سال پیچھے دھکیلنے کا حکم صادر کردے۔ ایسا حکم دے کر تو فوج خود بھی ناکارہ ہو جائے گی کیوں کہ اب تو کوئی دفاعی عسکری سرگرمی بھی جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
حرف آخر کے طور پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ درد سر آرمی چیف کا نہیں ہے کہ ملک میں کون سی معلومات عام ہونی چاہئیں اور کن پر پابندی لگنی چاہیے۔ شہریوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار ملک کی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ اس کے باوجود اگر جنرل عاصم منیر اپنی بصیرت عام کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں یہ الزام بھی قبول کرنا پڑے گا کہ ملک پر درحقیقت فوج ہی کا حکم چلتا ہے۔ موجودہ حکومت کی حیثیت محض شو پیس یا ڈمی کی ہے۔ یقین کرنا چاہیے کہ یہ الزام غلط ہے اور جنرل عاصم منیر فوج کے معاملات دیکھنے سے زیادہ کسی بات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ