پورے چار سال یعنی اگست 2019 کے بعد میں 24 ستمبر 2023 کو اسلام آباد میں اپنے اجنبی دوستوں سے ملا۔ میرے لیے یہ خوشی اور غم کا ملاجلا احساس تھا۔ پروین شاکر کے یہ اشعار میری کیفیات کا درست احاطہ کرتے ہیں۔
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے
میرے لیے گویا یہ اپنی موجودہ بےروزگاری کی چوتھی سالگرہ کی تقریب بھی تھی ۔ سرمایہ داری نے ہمیں کس قدر ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا ہے کہ ہم سب بس اپنی اپنی ذات کے محور میں گم ہیں اور گھومتے ہی چلے جارہے ہیں۔
امریکہ کی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیم سینٹ جوڈ کے مندوبین، اقوام متحدہ کی ڈبلیو ایچ او کے نمائندے، حکومت پاکستان کی سول بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے بڑے افسران اور اس غریب ملک کے بڑے معالجین سرطان بچگان اس ورکشاپ میں شریک تھے۔
دو دن تک یہ سب لوگ اس ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے سر جوڑے بیٹھے رہے کہ ان 90 فیصد بچوں کو کیسے بچایا جائے جو نوعمری میں سرطان کی بیماری کے ہاتھوں محض اس لیے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس اس انتہائی قابل علاج بیماری کے علاج کے لیے رقم اور ذرائع نہیں ہوتے۔
اس ورکشاپ کے نتیجے میں وفاقی وزارت صحت تک مندرجہ ذیل باتیں پہنچائی گئیں.
بچوں کا سرطان قابل علاج ہے۔بچوں کا سرطان بڑوں کے سرطان سے مختلف ہے۔
بچوں کے سرطان کا علاج بڑوں کے معالجین سرطان نہیں کر سکتے،بڑوں کے معالجین سرطان سے بات چیت کر کے انہیں بچوں کے معیاری طریقہ ہائے علاج کی پیروی کرنے پر زور دیا جائے، بچوں کے سرطان کی آگہی پرائمری سطح تک پہنچائی جائے،
سرطان کی علامات ظاہر ہونے پر اسے فوراً بچوں کے معالجین کے حوالے کرنے کا موثر نظام بنایا جائے، بچوں کے سرطان کی تشخیص، کیموتھیراپی، جراحی اور شعاعوں وغیرہ کے ذریعے مخصوص علاج فراہم کرنے کے علاوہ معاون علاج جیسے رہائش، نقل و حرکت، نفسیات، خوراک اور تمام سماجی مسائل کے حل کے لیے معاشی مدد فراہم کرنے کا موثر نظام بنایا جائے، سرکاری اور نجی مراکز کو باہمی اشتراک میں لانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں،بچوں کے سرطان کے اندراج کا موثر نظام بنایا جائے،نئے مراکز بنائے جائیں،
پہلے سے موجود مراکز کو بہتر بنایا جائے، بستروں کی تعداد بڑھائی جائے،بچوں کے سرطان کے لیے وفاقی سطح پر پالیسی بنائی جائے اور اسے صوبائی سطح تک پہنچایا جائے،
بچوں کے سرطان کے علاج کے لیے قانون سازی کی جائے،اور دوسری بہت سی گپ شپ۔
میری نظر میں یہ سب کارروائیاں موجودہ سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی موجودگی میں بےسود ہیں۔غریب کا استحصال ہوتا رہے گا اور اسے کم کرنے کی کوششیں ایسی پرتعیش اور مہنگی ورکشاپوں اور کانفرنسوں کی شکل میں جاری رہیں گی۔