پاکستان کے ہر ادارے میں مافیاؤں کا راج ہے۔ سب سے خوفناک صورتحال صحت کے شعبے کو درپیش ہے۔ خیراتی نجی ادارے کینسر زدہ بچوں کے نام پر بےتحاشا فنڈز اکٹھے کرتے ہیں۔ رمضان اور عید کے تہواروں پر ان اداروں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ان کے علاوہ ہر چھوٹے، بڑے شہر میں چھوٹے اور بڑے ہسپتال لوٹ مار کا دھندہ چلا رہے ہیں۔ کچھ ادارے شفاف انداز میں لوٹتے ہیں لیکن زیادہ تعفن ان اداروں سے اٹھتا ہے جو خیرات کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں۔ ان خیراتی لٹیروں کی ڈاڑھیاں بھی ہوتی ہیں اور ان کی پیشانیوں پر فنگس زدہ محرابیں بھی بنی ہوتی ہیں۔ یہ پرتعیش زندگیاں گزارتے ہیں، اپنے ملازمین سے گدھوں کی طرح کام لیتے ہیں اور کوئی ان کے گھناؤنے چہروں کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرے تو اسے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن دراصل ایک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
پاکستان میں نوے فیصد صحت کی سہولیات اس صحت مافیا کے پاس ہیں۔ سرکاری ادارے جن میں عوام کی اکثریت علاج کے لیے جاتی ہے وہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہوں بھی تو مفقود کر دی جاتی ہیں۔ صحت کارڈ بھی نجی صحت مافیا کو مضبوط کرنے کا ہتھیار ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کنسلٹنٹ مافیا کی اکثریت تعینات ہوتی ہے لیکن ان بڑے ڈاکٹروں کی ساری توجہ ان کے نجی دھندے کی طرف ہوتی ہے۔
پاکستان میں صحت کے شعبے میں سائنسی تحقیق انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے، کنسلٹنٹ ڈاکٹر سائنسی اصولوں اور ثبوتوں کے ساتھ علاج کرنے کی بجائے خدا بن کر اپنی مرضی کی رائے سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے امیر افراد اپنا علاج بیرون ملک جا کر کروانا پسند کرتے ہیں۔ پیچیدہ امراض کے لیے پاکستان کے ہسپتالوں میں جا کر علاج کروانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ افسوس کہ عوام کے پاس بہت قابل علاج امراض جیسے سرطان کے علاج کے لیے کوئی جگہ موجود ہی نہیں ہے۔ پاکستان کا صحت مافیا جانتا ہے کہ کینسر کا علاج دنیا میں موجود ہے اور بچوں میں کینسر سے صحتیاب ہونے کی شرح نوے فیصد ہے لیکن وہ کوئی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہونے دیتا کیونکہ اس سے سہولیات کا رخ عوام کی طرف مڑ سکتا ہے اور اسے یہ ڈر ہے کہ اس کی تجوریاں خالی ہو سکتی ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں بچوں میں سرطان سے صحتیابی کی شرح تقریباً صرف 20 فیصد ہے۔ یہ بھی محض ایک اندازہ ہی ہے کیونکہ درست اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے آج تک کوئی کینسر رجسٹری تک نہیں بنائی جا سکی۔ ہاں فوٹو سیشن میں سب آگے آگے ہوتے ہیں۔ سیمینار اور سمپوزیم منعقد کر کے تفریح اور عیش کا بندوبست ضرور کیا جاتا ہے۔
یہاں فارماسیوٹیکل مافیا کا ذکر کرنا میں ضرور مناسب سمجھوں گا۔ ویسے تو ساری دنیا میں سائنسی تحقیق کے ثمرات کو عوام تک بآسانی پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں تو اس کی پانچویں انگلیاں گھی میں ہیں۔ پاکستان میں اینٹی بائیوٹک کی گولیاں شاید ساری دنیا میں سب سے زیادہ لکھی جاتی ہیں۔ پاکستانی سرمایہ دار صحت مافیا مقامی اور بین الاقوامی فارما مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کا استحصال کرتا ہے۔
میں نے اتنی برائیاں گنوا دیں کیا میرے پاس ان کا کوئی حل بھی موجود ہے۔ جی ضرور۔۔ سائنسی ترقی بین الاقوامی سطح پر بہت تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ مواصلات میں ترقی کی وجہ سے عوام میں شعور اور آگہی بڑھ رہی ہے۔ سائنس کو سیاست سے جوڑ دیا جائے تو اشتراکیت وجود میں آتی ہے۔اشتراکیت سائنسی اور سیاسی ترقی کی معراج ہے جسے حاصل کیے بغیر انسان اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔دنیا شعوری اور غیرشعوری طور پر اشتراکیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے لیکن یہ عوامی مزاحمت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے طبقات کا خاتمہ اور طبقاتی شعور کا حصول بھی ضروری ہے۔پاکستانی عوام ہر مافیا کو پہچانیں اور ان سے متاثر ہونے کی بجائے ان کے خلاف مزاحمت کریں۔ آخری فتح آپ کی ہو گی۔
فیس بک کمینٹ