Browsing: عطاء الحق قاسمی

اگر کوئی خوبصورت لڑکی اپنی قسمت کا احوال جاننے کیلئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی تو کہتا یہاں روشنی کم ہے۔آپ کے ہاتھ کی لکیریں نہیں پڑھی جا رہیں، آپ نیچے گارڈن میں میرے ساتھ آجائیں۔ گارڈن میں وہ برگد کے درخت کے نیچے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اس کی قسمت کا احوال اتنے دلکش انداز میں اسے بتاتا، جس میں اس کیلئے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہوتیں۔ وہ اس دوران اس کا ہاتھ سہلاتا رہت

بالآخر انہوں نے مجھے ناروے میں پاکستان کا سفیرمقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں اگر اس کے بعد کی اپنے انکار کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے میرے تین گواہ ہیں۔ مجید نظامی جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، مجیب الرحمان شامی اور تسنیم نورانی میرے گواہ ہیں۔ ان سے پوچھ لیں کہ میں انکار کے رستوں پر کتنی دیر تک چلتا رہا۔

میں نے اس بی بی کو دلاسہ دیا اور اسے یقین دلایا کے ان شااللہ اسے ’راہ راست‘ پر لے آؤں گا۔ اس کے بعد میں نے سیریلین کو مخاطب کیا اور کہا تمہارے دروازے کے ساتھ میرا دروازہ ہے بجائے گھر پر بیٹھے رہنےکے تم میری طرف آ جایا کرو۔ پھر میں نے اسے وہ اوقات بتادیئے جن میں میں گھر پر ہوتا ہوں۔ سو اس نے میری طرف آنا جانا شروع کر دیا اور الحمدللہ صرف ایک ماہ میں وہ راہ راست پر آگئی۔ جس پر اس کی والدہ نے روز میری طرف آکر شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ شاید وہ خود بھی راہ راست پر آنا چاہتی تھی مگر میں نے پورے امریکہ کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا تھا۔

میں نے اپنے لئے چائے ’ڈلو‘ میں بنائی ۔’ڈلو‘ ہم اسٹیل کے اس چھوٹے برتن کو کہتے تھے جس میں دودھ ہوتا تھا۔ برائے نام تنخواہ لینے والے اخبار نویس اس زمانے میں ایسی ہی شاہ خرچیوں کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔