پہلے بات دھیمے سروں میں ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ پاکستان اور چین کے درمیان کھلے بندوں مفاہمت کی یادداشت پر بہت سے عقل مند دکھائی دینے والے افسروں نے دستخط کرکے اعلان کیا کہ پاکستان میں گدھوں کی افزائش پر نہ صرف توجہ دی جائے گی بلکہ موجودہ گدھوں کوبھٹہ مالکوں،خر کاروں اور ریڑھی بانوں کےغصے سے بچایا جائے گا جو اپنی بعض ’’ناکامیوں‘‘ کاذمہ دار بھی اسی بے زبان مخلوق کو خیال کرتے ہیں حالانکہ بعض مذہبی کتابوں میں اسکی آواز تک کا ذکر ہے اور روایات میں تو برگزیدہ افراد نے اس پر سواری کی ہے،مولانا روم نے اپنی ایک حکایت میں کسی کنیز اور گدھے کا ذکر کیا ہے اگر اسے ہم دنیادار آدمی کے طور پر بیان کریں گے تو ملتان آرٹس کونسل کی کوششوں سے قریبی چوک میں جومجسمہ لگایا گیا ہے اس پر ہی مظاہرے شروع ہو جائیں گے۔
ملا نصیرالدین اور انکے دم ساز گدھے کی حکایات تو ہمارے ہاں بھی پہنچی ہوئی ہیں مگر ترکیہ میں تو مولانا رومی کا معاصر یہ ملا باقاعدہ کلچرل ہیرو ہے البتہ یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ترکی زبان میں گدھے کو ایشیک کیوں کہتے ہیں؟ البتہ حوجہ نصرالدین پر فلمیں بنائی گئی ہیں ناول لکھے گئے ہیں ادھر امریکہ میں تو گدھا ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان بن گیا کہ ملا نصیرالدین جیسا دانشمند ایک صدی پہلے امریکی صدر کے مقابلے پر الیکشن لڑ رہا تھا جب ٹرمپ جیسی زبان اور اسلوب کے حامل ری پبلکن سربراہ نے اسے گدھا،احمق اور بیوقوف کہا تواینڈریو جیکسن نے کہا کہ گدھا تو محنتی،جفاکش اورصابر ہے اور اسے اپنے انتخابی پوسٹروں میں جگہ دے دی اور یوں صدر امریکہ کو ہرا کے وائٹ ہاؤ س جا پہنچا ۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے مابین خر نوازی اور خر پروری کے تحت جب عملی اقدامات کئے جائیں گے تو بھارت خاموش رہے گا وہ کرشن چندر کا ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ کا چینی ترجمہ پیش کرے گا کہ جو ایک مقبول رسالے ’’بیسویں صدی‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا تب بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو جیسے پڑھے لکھے تھے اور وہ کرشن چندر کا طنز بھی برداشت کرتے تھے اس کرشن چندر کا جو پاکستان میں بھی بہت مقبول تھے،وہی کرشن چندرجنہوں نے پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے بڑے اہل قلم سے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کرائے تھے تو نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی پردھان منتری تھیں اور جنہوں نے سولہ دسمبر کو کہا تھا کہ آج تقسیم ہند کی بنیاد بننے والا دوقومی نظریہ ہم نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، انہوں نے ہی کرشن چندر سے کہا تھا کہ آپ کی اس مہم سے ہماری بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو رہی ہے،شملہ مذاکرات کا انتظار کریں اور کرشن نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔حیرت ہوتی ہے تب بڑے ادیبوں کے مشترک بیان سے طاقتور حاکم ڈرتے تھے۔اگر کسی عالمی فورم پر گدھوں پر بھارت اور پاکستان کا کلیم کرشن چندر کے حوالے سے زیر بحث آیا تو ممکن ہے ہمارے رشید احمد صدیقی کی بیوہ بیٹی محترمہ سلمی صدیقی سے کرشن کی شادی اورشہباز کا مسلم روپ اختیار کرنے والے کرشن چندر کی پیش بینی سے ہمارے موجودہ وزیر اعظم کے قریبی احباب باخبر کریں جو اس وقت عربی دانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس لئے ان کی خدمت میں ایک عرب ادیب توفیق الحکیم کا ڈرامہ ’’گدھا منڈی‘‘ پیش کریں،جس کا ترجمہ آصف فرخی مرحوم نے کیا تھا۔
دو اقتباس دیکھئے:(الف) ’’میں نے والد کی طے کردہ لڑکی سے شادی سے انکار کیا تو انہوں نے کہا تم گدھے ہو،میں نے کہا نہیں میں گدھا نہیں،انہوں نے کہا میں جو کہہ رہاہوں تمہیں گدھا بننا ہی ہوگا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا اس وقت آسمان کے دروازے کھلے تھے۔یہ دعا قبول ہو گئی اور میں سچ مچ گدھا بن گیا،میرا باپ مرگیا اور پھر میں مویشیوں کے باڑے میں پایا گیا‘‘
(ب) گدھے کو عقل مندی کی باتیں کرنے پر مالک پیار سے صبا رفتار کہنے لگا ہے وہ صبا رفتارکہتا ہے:’’فصل کا ایک حصہ اگلی بوائی کے بیجوں کیلئے رکھ لیں…آپ کے کھیت کے پاس دیکھا ہے شلجم اور لہسن پیاز کے نیچے دس بالشت زمین بے کار پڑی ہے کہ پانی اس تک نہیں پہنچ رہا،اگر بیوی کی چوڑیاں بیچ کر وہاں کچھ کام کرا لو ہر برس کی طرح قرض نہیں لینا پڑے گا‘‘ بیوی نے شور مچایا کہ میں پڑوسیوں کو بلا کے لاتی ہوں میرا شوہر پاگل ہو گیا ہے ایک گدھے کے مشورے سے بیوی کی چوڑیاں بیچ رہا ہے‘‘
٭٭٭٭
پطرس بخاری کے مضامین سبھی نے پڑھے ہوں گے ،اس کی ابتدا میں ایک نوٹ ہے کہ میں نے اپنے استاد سعید دہلوی (مصنف خواب ہستی ،یاسمین ) سے ان مضامین کی زبان پر اصلاح لی ہے ایمرسن کالج ملتان کے ابتدائی استادوں میں انہی مرزا سعید کے بھائی مرزا محمد رشید تھے،جنکی صاحب زادیوں اسما رشید اور شہوار رشید کو جناب ضیا الحق نے ویمن کالج ملتان سے اپنی دانست میں ملتان بدر کیا تھا۔ ہماری ایک شاگرد کاشفہ چوہدری نے ایم اے کے مقالےکی مرزا رشید کی ایک کتاب حکایات بید پائے کو مرتب کیا تھا اس میں کئی حکایات ہیں مگر ایک چالاک لومڑی کی بھی ہے جو ریٹائرمنٹ کے قریب ایک بزرگ شیر کو مشورہ دیتی ہے کہ گدھے کے دل اور کان کھائے جائیں تو آپ کی چستی دیکھ کے ممکن ہے محکمہ جنگلات یعنی محکمہ تعلیم والے آ پ کی بادشاہت کی مدت میں توسیع کر دیں۔پھر وہ بہلا پھسلا کے ایک گدھے کو لے آتی ہے اور اسے یہ سعادت بخشتی ہے کہ بوڑھے شیر کا شکار بن جائے اس کے بعد شیر کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ ایک پریس کانفرنس کرلیں میں کھانا چن دیتی ہوں جب بادشاہ پلٹ کے آتا ہے تو غضب ناک ہوتا ہے کہ کان اور دل غائب ہیں اس کے سوال پر وہ کہتی ہے جہاں پناہ اس کے پاس دل اور کان تھے ہی نہیں وگرنہ وہ میرے بچھائے جال میں نہ پھنستا۔‘‘
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )